سورة الجمعة - آیت 2

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں (١) میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ: اس آیت کو دلیل بنا کر بعض اہل کتاب کہتے ہیں کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) صرف عربوں کے لیے رسول تھے، کیونکہ ’’ الْاُمِّيّٖنَ ‘‘ عرب قوم کو کہتے ہیں، لہٰذا آپ غیر عرب لوگوں اور یہود و نصاریٰ کے لیے رسول نہیں تھے۔ لیکن ان کی یہ بات درست نہیں، کیونکہ قرآن مجید میں’’ الْاُمِّيّٖنَ ‘‘ کا لفظ ایک معنی میں نہیں بلکہ مختلف مواقع پر مختلف معانی کے لیے آیا ہے۔ کہیں وہ اہلِ کتاب کے مقابلے میں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ قُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ﴾ [ آل عمران : ۲۰ ] ’’اور ان لوگوں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے اور اُمیوں (ان پڑھ لوگوں) سے کہہ دے کیا تم تابع ہو گئے؟ ‘‘ یہاں اُمیوں سے مراد مشرکینِ عرب ہیں، انھیں اہل کتاب (یہودو نصاریٰ) سے الگ گروہ قرار دیا گیاہے۔کہیں یہ لفظ خود اہلِ کتاب کے ان پڑھ لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسے فرمایا : ﴿وَ مِنْهُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّا اَمَانِيَّ﴾ [ البقرۃ : ۷۸ ] ’’اور ان میں سے کچھ اُمی (ان پڑھ) ہیں، جو کتاب کا علم نہیں رکھتے سوائے چند آرزوؤں کے۔‘‘ اور کسی جگہ یہ لفظ خالص یہودی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے، جس کے مطابق اس سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو یہودی نہیں ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌ﴾ [ آل عمران : ۷۵ ] ’’یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا ہم پر اَن پڑھوں کے بارے میں (گرفت کا) کوئی راستہ نہیں۔‘‘ یعنی ان کے اندر غیر یہود کا مال مار کھانے کی بد دیانتی پیدا ہونے کاسبب یہ ہے کہ انھوں نے کہا کہ اُمیوں کے بار ے میں ہم پر گرفت کا کوئی راستہ نہیں۔ یہود کی اس اصطلاح کا پس منظر یہ ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کے متعلق تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھے کہ ان میں کوئی نبی مبعوث ہو سکتا ہے، یا انھیں آسمانی کتاب مل سکتی ہے۔ (دیکھیے آل عمران : ۷۳) وہ اپنے سوا تمام اقوام کو ناشائستہ، بد مذہب اور حقیر و ذلیل سمجھتے تھے۔ زیر تفسیر آیات میں ’’ الْاُمِّيّٖنَ ‘‘ سے مراد صرف عرب نہیں، یہودی اصطلاح کے مطابق وہ سب لوگ ہیں جو یہودی نہیں، کیونکہ یہاں ’’ الْاُمِّيّٖنَ ‘‘ کے تحت دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہے، یعنی ’’ هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ ‘‘ میں عرب ’’امیین‘‘ کا ذکر ہے، جنھیں یہ شرف حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نسباً ان میں سے تھے اور اس سے اگلی آیت میں غیر عرب امیین کا ذکر ہے جو بعد میں اسلام لانے والے تھے، اس میں فرمایا : ﴿ وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ﴾ ’’اور ان (امیین) میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (اس رسول کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ اس کی دلیل کہ ان امیین سے مراد غیر عرب ہیں، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں : (( كُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ : ﴿ وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ﴾ قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ يَا رَسُوْلَ اللَّهِ!؟ فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتّٰی سَأَلَ ثَلاَثًا، وَفِيْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، وَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلٰی سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هٰؤُلاَءِ )) [بخاري، التفسیر، سورۃ الجمعۃ : ۴۸۹۷ ] ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے توآپ پر سورۂ جمعہ نازل ہوئی : ﴿ وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ﴾ میں نے پوچھا : ’’یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ آپ نے جواب نہ دیا، یہاں تک کہ میں نے تین مرتبہ سوال کیا۔ ہم میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان پر رکھا، پھر فرمایا :’’اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوتا تو ان لوگوں میں سے کچھ آدمی یا (فرمایا) ایک آدمی اسے ضرور حاصل کر لیتا۔‘‘ دراصل اس سورت میں یہود پر چوٹ ہے کہ وہ لوگ جنھیں تم اُمی کہتے ہو اور اپنے مقابلے میں ذلیل اور حقیر سمجھتے ہو انھی میں اس اللہ نے ایک رسول مبعوث کیا ہے جو ’’ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ ‘‘ اور ’’ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ ‘‘ ہے اور یہ اللہ کا فضل ہے، جسے وہ چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے۔ تم یہ بتاؤ کہ تمھیں اس کا ٹھیکیدار کس نے اور کب بنایاہے کہ جسے تم چاہو اسی کو یہ فضل عطا ہو، دوسرے کو عطا نہ ہو؟ رہی یہ بات کہ اگرمان بھی لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب و عجم کے امیین کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، تو اس سے آپ کا یہود و نصاریٰ کی طرف مبعوث ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کے الفاظ سے یہ ظاہر ہے کہ آپ یہود کے سوا سب لوگوں کی طرف رسول ہیں، مگر اس میں یہ صراحت نہیں کہ آپ یہود و نصاریٰ کی طرف رسول نہیں۔ یہ مطلب اس آیت کا مفہوم مخالف ہے جو حجت نہیں ہوتا، مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ﴾ [العنکبوت : ۴۸ ] ’’اور تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا۔‘‘ اب اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے نہیں لکھتے بلکہ بائیں ہاتھ سے لکھتے تھے تو یہ غلط ہے۔ خصوصاً یہاں تو مفہوم مخالف مراد لیا ہی نہیں جا سکتا، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ مَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ [ سبا : ۲۸ ] ’’اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے اس حال میں کہ خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ‘‘ اور فرمایا : ﴿ قُلْ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا﴾ [ الأعراف : ۱۵۸ ] ’’کہہ دے اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ ان دونوں آیات کی تفسیر میں مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں۔ 2۔ سورت کی پہلی آیت ’’ يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ ‘‘ میں مذکور اللہ تعالیٰ کی صفات کی اس آیت میں مذکور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اس اللہ کی تسبیح کر رہی ہے اور اس کے ہر عیب اور کمی سے پاک ہونے کی شہادت دے رہی ہے جو ’’ الْمَلِكِ ‘‘ (بادشاہ) ہے۔ ( دیکھیے حشر : ۲۳) اپنی سلطنت کا انتظام کرنے والا، اس میں اپنے احکام بھیجنے والاہے اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جسے چاہتا ہے منتخب فرماتا ہے۔ اس نے اپنے شہنشاہی اختیار کے تحت ان لوگوں میں سے رسول بھیجنے کے بجائے جو اپنے آپ کو اہلِ کتا ب، پڑھے لکھے اور مہذب سمجھتے تھے اور دوسروں کو حقیر جانتے تھے، اُمی لوگوں میں ایک رسول انھی میں سے بھیج دیا۔ ’’ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ ‘‘ جو اس کے احکام پر مشتمل آیات انھیں مسلسل پڑھ کر سناتا ہے۔ ’’ الْقُدُّوْسِ ‘‘ وہ بادشاہ قدوس ہے (دیکھیے حشر : ۲۳) اس نے ان میں ایسا رسول بھیجا جو انھیں ہر قسم کے کفر و شرک اور تمام قباحتوں اور آلودگیوں سے پاک کرتا ہے۔ ’’ الْعَزِيْزِ ‘‘ (سب پر غالب) ہے، اس کا رسول انھیں اس کی کتاب کی تعلیم دیتا ہے جو اس کے کامل غلبے کی دلیل اور ترجمان ہے۔ ’’ الْحَكِيْمِ ‘‘ (کمال حکمت والا) ہے، اس کا رسول انھیں اس کی عطا کردہ حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ 3۔ قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات چار مقامات پر آئی ہیں، سورۂ بقرہ کی آیت (۱۲۹) میں اہلِ عرب کو اپنا احسان یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ ان صفات والا پیغمبر وہ ہے جس کے لیے ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے کہ وہ اسے ان کی اولاد میں مبعوث فرمائے، سوتمھیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ سورۂ بقرہ ہی کی آیت (۱۵۱) میں فرمایا کہ ان اوصاف والا پیغمبر عطا کرنے پر میری نعمت کو پہچانو، مجھے یاد رکھو، میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری مت کرو۔ سورۂ آلِ عمران(۱۶۴) میں یہ احسان یاد دلایا کہ اتنی اعلیٰ صفات کا رسول اس نے خود ان میں مبعوث فرمایا، جس پر وہ سب احوال گزرتے ہیں جو بطورِ انسان ان سب پر گزرتے ہیں۔ اُحد اور دوسرے مقامات پر دوسروں کی طرح اسے بھی زخم کھانا پڑتے ہیں، سو وہ ان کے لیے ایک کامل نمونہ ہے۔ چوتھا مقام یہ آیت ہے جس میں یہود کے زعم کو باطل کرنا مقصود ہے، اس لیے بعد میں ’’ مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ‘‘ سے ان کی نالائقیوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ 4۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام انسانوں کے لیے ہے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب امیین میں پیدا کرنے اور انھیں اسلام کی دعوت کے اوّلین مخاطب بنانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ کار فرما تھی۔ تفسیر قاسمی میں یہ بات نہایت خوبصورت اور جامع الفاظ میں بیان کی گئی ہے، وہ لکھتے ہیں : ’’ وَ إِنَّمَا أُوْثِرَتْ بِعْثَتُهُ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِ فِي الْأُمِّيِّيْنَ، لِأَنَّهُمْ أَحَدُّ النَّاسِ أَذْهَانًا، وَأَقْوَاهُمْ جَنَانًا، وَ أَصْفَاهُمْ فِطْرَةً، وَأَفْصَحُهُمْ بَيَانًا، لَمْ تَفْسُدْ فِطْرَتُهُمْ بِغَوَاشِي الْمُتَحَضِّرِيْنَ وَلَا بِأَفَانِيْنِ تَلَاعُبِ اُولٰئِكَ الْمُتَمَدِّنِيْنَ، وَلِذَا اِنْقَلَبُوْا إِلٰي النَّاسِ بَعْدَ الإِْسْلَامِ بِعِلْمٍ عَظِيْمٍ وَحِكْمَةٍ بَاهِرَةٍ، وَسِيَاسَةٍ عَادِلَةٍ، قَادُوْا بِهَا مُعَظَّمَ الْاُمَمِ وَدَوَّخُوْا بِهَا أَعْظَمَ الْمَمَالِكِ ‘‘ ’’اُمی لوگوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو اس لیے ترجیح دی گئی کہ وہ ذہن کے لحاظ سے سب لوگوں سے تیز، دل کے لحاظ سے سب سے قوی، فطرت کے لحاظ سے سب سے صاف اور بیان میں سب سے زیادہ فصیح تھے۔ ان کی فطرت شہری لوگوں کی آلودگیوں سے بگڑی نہیں تھی اور نہ ہی ان نام نہاد تمدن و تہذیب والوں کے مختلف کھیل تماشوں سے فاسد ہوئی تھی۔ اسی لیے اسلام لانے کے بعد وہ لوگوں کے پاس ایسا عظیم علم، حیران کن حکمت و دانائی اور عدل پر مبنی سیاست لے کر آئے جس کے ساتھ انھوں نے دنیا کی بڑی بڑی اقوام کی قیادت کی اور عظیم ترین ممالک کو اپنا زیر ِفرمان بنا کر چھوڑا۔‘‘ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ:’’ اِنْ ‘‘ اصل میں ’’إِنَّهُمْ‘‘ ہے، تخفیف کے لیے ’’إِنَّ‘‘ کو ’’إِنْ‘‘ کر دیا اور اس کے اسم ’’هُمْ‘‘ ضمیر کو حذف کر دیا اور اس بات کی دلیل کہ یہ ’’ اِنْ ‘‘ نافیہ یا شرطیہ نہیں وہ ’’ لام‘‘ ہے جو ’’ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ‘‘ پر آیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اُمی لوگ کس طرح کی کھلی گمراہی میں تھے اس کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں بیان کیا، جب اس بادشاہ نے کفار قریش کے وفد کی شکایت پر انھیں ساتھیوں سمیت بلا کر حقیقت حال دریافت کی۔ انھوں نے فرمایا : (( أَيُّهَا الْمَلِكُ ! كُنَّا قَوْمًا أَهْلَ جَاهِلِيَّةٍ نَعْبُدُ الْأَصْنَامَ، وَنَأْكُلُ الْمَيْتَةَ وَنَأْتِي الْفَوَاحِشَ، وَنَقْطَعُ الأَرْحَامَ، وَنُسِيْءُ الْجِوَارَ، يَأْكُلُ الْقَوِيُّ مِنَّا الضَّعِيْفَ، فَكُنَّا عَلٰی ذٰلِكَ حَتّٰی بَعَثَ اللّٰهُ إِلَيْنَا رَسُوْلاً مِّنَّا نَعْرِفُ نَسَبَهُ، وَصِدْقَهُ ، وَأَمَانَتَهُ ، وَعَفَافَهُ، فَدَعَانَا إِلَی اللّٰهِ لِنُوَحِّدَهُ، وَنَعْبُدَهُ، وَنَخْلَعَ مَا كُنَّا نَعْبُدُ نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ دُوْنِهِ مِنَ الْحِجَارَةِ وَالْأَوْثَانِ )) [مسند أحمد : 1؍202، ح : ۱۷۴۰، قال المحقق إسنادہ حسن ] ’’اے بادشاہ! ہم جاہلیت والے لوگ تھے، بتوں کی عبادت کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، فواحش کا ارتکاب کرتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے، پڑوسیوں سے بدسلوکی کرتے تھے اور ہم میں سے قوت والا کمزور کو کھا جاتا تھا۔ ہم اسی حال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کے نسب، صدق، امانت اور پاک دامنی کو ہم جانتے تھے۔ اس نے ہمیں اللہ کی طرف دعوت دی کہ ہم اسے ایک مانیں، اس کی عبادت کریں اور ان پتھروں اور تھانوں سے یکسر علیحدگی اختیار کریں جن کی عبادت اللہ کو چھوڑ کر ہمارے آباواجداد کرتے تھے (اس کے بعد جعفر رضی اللہ عنہ نے انھیں اسلام کے احکام بیان فرمائے)۔‘‘