سورة الصف - آیت 4

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں (١)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ ....: ’’ مَرْصُوْصٌ ‘‘ ’’اَلرِّصَاصُ‘‘ سیسہ (سکہ) ’’ رَصَّ يَرُصُّ رَصًّا‘‘ (ن) ایک چیز کو دوسری کے ساتھ خوب جوڑ دینا، چمٹا دینا۔ اس میں سیسے کے اجزا کے باہم متصل ہونے کی تشبیہ ملحوظ ہے۔ ’’ بُنْيَانٌ ‘‘ ’’بَنٰي يَبْنِيْ بِنَاءً ‘‘ (ض) سے مصدر ہے بمعنی اسم مفعول، بنائی ہوئی عمارت۔ ’’ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ ‘‘ ایسی عمارت جس کے اجزا ایک دوسرے سے سیسے کی طرح ملے ہوئے ہوں۔ 2۔ اس جگہ اس آیت کا آنا دلیل ہے کہ پہلی آیات کا تعلق قتال فی سبیل اللہ سے ہے۔ 3۔ اس آیت سے قتال فی سبیل اللہ کرنے والوں کی فضیلت ظاہر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہیں۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( قِيْلَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤْمِنٌ يُجَاهِدُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، قَالُوْا ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ مُؤْمِنٌ فِيْ شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ يَتَّقِي اللّٰهَ وَ يَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّهِ )) [بخاري، الجہاد والسیر، باب أفضل الناس مؤمن مجاہد بنفسہ....: ۲۷۸۶ ] ’’لوگوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! لوگوں میں سے افضل (سب سے بہتر) کون ہے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ مومن جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ جہاد کرتا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’پھر کون؟‘‘ فرمایا : ’’وہ مومن جو گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں ہے، اللہ سے ڈرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔‘‘ 4۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی محبوبیت انھی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جن میں یہ اوصاف موجود ہوں، ایک یہ کہ وہ جان بچانے والے نہ ہوں بلکہ لڑنے والے اور جان و مال قربان کرنے والے ہوں۔ دوسرا یہ کہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے لڑیں۔ تیسرا یہ کہ وہ صف باندھ کر نظم و ترتیب کے ساتھ لڑیں، اس میں اطاعت امیر بھی شامل ہے کہ جہاں ان کی ذمہ داری لگا دی جائے وہاں ڈٹے رہیں، اس کے بغیر نہ صف بنتی ہے نہ قائم رہتی ہے۔ چوتھا یہ کہ وہ عقیدہ و مقصد میں، ایک دوسرے سے محبت میں اور ایک دوسرے پر اعتماد میں پوری طرح یک جان ہوں، جس طرح ’’بنیان مرصوص‘‘ میں کوئی رخنہ نہیں ہوتا ان میں بھی کسی قسم کا کوئی رخنہ نہ پایا جائے۔ پھر جس طرح ’’بنیان مرصوص‘‘ اپنی جگہ سے نہیں ہٹتی ان کے قدم بھی کسی صورت میدان سے اکھڑنے نہ پائیں، جیسا کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ تمام اوصاف پائے جاتے تھے۔ دیکھیے سورۂ فتح کی آیت (۲۹) : ﴿ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ﴾ کی تفسیر۔