سورة الحشر - آیت 10

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور (ان کے لئے) جو ان کے بعد آئیں اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال (١) اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ : اس کا عطف مہاجرین و انصار پر ہے جن کا ذکر پچھلی دو آیات میں گزرا۔ یعنی اموال فے مہاجرین و انصار کے فقراء کے لیے ہیں اور ان فقراء کے لیے جو ان کے بعد آئے۔ یہ اموال فے کے مستحقین کی تیسری قسم ہے۔ ان میں تابعین، تبع تابعین اور قیامت تک آنے والے تمام مسلمان شامل ہیں، اگر ان میں وہ صفات موجود ہوں جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ ....: ان میں سے پہلی صفت جو ’’ الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ ‘‘ سے ظاہر ہے، یہ ہے کہ وہ مہاجرین و انصار کو مومن مانتے ہوں اور انھی چیزوں پر ایمان رکھتے ہوں جن پر ان کا ایمان تھا۔ دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ مہاجرین و انصار صحابہ اور ان کے پیروکاروں سے نہ صرف محبت رکھتے ہوں بلکہ دعا بھی کرتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں ان کے بارے میں کوئی کینہ یا دشمنی باقی نہ رہنے دے اور نہ ہی پیدا ہونے دے۔ مفسر ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے کیا ہی خوب صورت استنباط کیا ہے کہ رافضی جو صحابہ کو گالی دیتا ہو، اس کا مال فے میں کوئی حصہ نہیں، کیونکہ اس میں وہ اوصاف نہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان ’’ وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ‘‘ میں ذکر فرمائے ہیں۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے اس آیت کے مفہوم کے پیشِ نظر اپنے بھانجے عروہ بن زبیر سے فرمایا : (( يَا ابْنَ أُخْتِيْ! أُمِرُوْا أَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَبُّوْهُمْ )) [مسلم، التفسیر، باب في تفسیر آیات متفرقۃ : ۳۰۲۲ ] ’’اے میرے بھانجے! ان لوگوں کو حکم دیا گیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے لیے مغفرت کی دعا کریں، لیکن وہ انھیں گالیاں دینے لگے۔‘‘ بعض نے فرمایا، جس کے دل میں کسی صحابی کے متعلق کینہ ہو اور وہ تمام صحابہ کے لیے رحم کی دعا نہ کرتا ہو وہ ان لوگوں میں شامل نہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بالترتیب ایمان والوں کے تین مراتب بیان فرمائے ہیں، مہاجرین، انصار اور ان کے وہ پیروکار جن میں وہ اوصاف ہوں جو آیت میں مذکور ہیں، سو جو شخص ان صفات والے پیروکاروں میں سے نہ ہو وہ مومنوں کی اقسام سے خارج ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رافضی لوگوں سے، جو صحابہ کو گالی دیتے ہیں، یہود و نصاریٰ ہی اچھے رہے، کیونکہ یہود سے پوچھا گیا کہ تمھاری ملت میں سب سے بہتر لوگ کون ہیں؟ انھوں نے کہا، موسیٰ علیہ السلام کے اصحاب۔ نصاریٰ سے پوچھا گیا، تمھاری ملت میں سب سے بہتر لوگ کون ہیں؟ انھوں نے کہا، عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب۔ رافضیوں سے پوچھا گیا کہ تمھاری ملت میں سب سے برے لوگ کون ہیں؟ تو انھوں نے کہا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب۔ [ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ] رَبَّنَا اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ : اپنے سے پہلے ایمان والوں کے لیے مغفرت کی دعا اور اپنے سینوں کو ان کے کینے سے پاک رکھنے کی دعا کے آخر میں اللہ تعالیٰ کو اس کے ان دو اسمائے حسنیٰ کا واسطہ دیا، کیونکہ یہ دونوں چیزیں اس کی رافت و رحمت ہی سے حاصل ہو سکتی ہیں۔