سورة المجادلة - آیت 12

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے مسلمانو! جب تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو (١) یہ تمہارے حق میں بہتر اور پاکیزہ تر ہے (٢) ہاں اگر نہ پاؤ تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ ....: ہر مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مناجات اور خلوت میں گفتگو کی خواہش رکھتا تھا، جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشقت اٹھانا پڑتی تھی۔ اس پر مزید منافقین کا رویہ تھا کہ انھوں نے محض اپنی بڑائی جتانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشیاں شروع کر دیں۔ ایک ایک آدمی آپ کا خاصا وقت لے جاتا، اس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف ہوتی، کیونکہ انھیں عام فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملتا، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ان کا یہ طرز عمل شاق گزرتا، مگر آپ مروّت و اخلاق کی وجہ سے کسی کو منع نہ فرماتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی میں گفتگو کرنا چاہے وہ اس سے پہلے صدقہ دے کر آئے، البتہ نادار مسلمانوں کے لیے گنجائش رکھی کہ اگر صدقہ کرنے کے لیے تمھارے پاس کچھ نہ ہو اور تمھیں علیحدگی میں گفتگو کرنا ضروری ہو تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ منافقین عموماً مال دار تھے مگر سخت بخیل تھے،لہٰذا انھوں نے بخل کی وجہ سے علیحدگی میں گفتگو کر کے آپ کا وقت ضائع کرنا ترک کر دیا۔ ذٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُ: یعنی اس حکم کا مقصد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشقت ہٹانا نہیں بلکہ تمھاری تربیت بھی ہے کہ جب بھی تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی میں گفتگو کی خواہش ہوگی اور ہر بار اس سے پہلے تم صدقہ کرو گے تو اس سے فقراء کا فائدہ ہو گا اور تمھیں خرچ کرنے کی عادت پڑے گی، بخل کی کمینگی دور ہو گی، مال میں برکت ہوگی، آفات و مصائب اور جہنم سے حفاظت ہوگی اور اموال و قلوب کو طہارت حاصل ہوگی۔