يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے ورثے میں لے بیٹھو (١) انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو (٢) ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کریں (٣) ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائی کر دے۔ (٥)
1۔ لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا: زنا وغیرہ کے سلسلہ میں ضمناً توبہ کے احکام بیان فرمانے کے بعد اب یہاں سے پھر عورتوں کے حقوق کا بیان ہو رہا ہے اور اس سے مقصد عورتوں کو اس ظلم وزیادتی سے نجات دلانا ہے جو جاہلیت میں ان پر روا رکھی جاتی تھی۔ اس کے مخاطب یا تو شوہر کے اولیاء ہیں، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین نے اس آیت کی شان نزول میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں میت کے اولیاء دوسری چیزوں کی طرح اس کی بیوی کے بھی مالک ہوتے تھے، ان میں سے اگر کوئی چاہتا تو خود اس سے شادی کر لیتا، یا کسی دوسرے سے شادی کر دیتے( اور مہر خود لے لیتے) اور اگر چاہتے تو عورت کو کلیتاً شادی ہی سے روک دیتے( حتیٰ کہ وہ مر جاتی اور اس کے مال کے وارث خود بن جاتے) عورت کے اولیاء کو اس سلسلہ میں کوئی اختیار نہ ہوتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور عورت پر ان کے تسلط کو ختم کر دیا۔ [ بخاری، التفسیر، باب :﴿لا یحل لکم …﴾ : ۴۵۷۹ ] اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے مخاطب شوہر ہوں، چنانچہ بعض علماء نے اس کی شان نزول میں لکھا ہے کہ وہ عورتوں کو طلاق نہ دیتے بلکہ تنگ کرتے رہتے، تاکہ اگر مر جائیں تو ان کے وارث بن جائیں اور اگر طلاق لینا چاہیں تو جو کچھ انھیں دیا ہے اس میں سے کچھ واپس کریں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ پہلی صورت میں اس کا حاصل یہ ہے کہ خاوند کے مرنے کے بعد اسے نکاح سے روکنا جائز نہیں، بلکہ وہ جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے اور خاوند کے اولیاء اس طرح زبردستی اس کے وارث نہیں بن سکتے۔ دوسری صورت میں، یعنی جب شوہر مخاطب ہوں، تو خلاصہ یہ ہو گا کہ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ عورت سے مہر واپس لینے کی غرض سے اسے تنگ کرتا رہے اور طلاق نہ دے، حتیٰ کہ وہ خلع پر مجبور ہو جائے۔ یہ دوسری صورت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اور ابن عطیہ وغیرہ نے اسی کو پسند کیا ہے، اس لیے کہ آیت کے بقیہ حصے کا تعلق بلا شک و شبہ شوہروں ہی کے ساتھ ہے، کیونکہ واضح بے حیائی کے ارتکاب کی صورت میں خاوند ہی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اسے روک رکھے، تاکہ اسے مہر وغیرہ، جو کچھ دیا ہے، واپس لے کر طلاق دے، شوہر کے اولیاء کو یہ اختیار نہیں ہے۔ (فتح القدیر، قرطبی) اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خطاب عام مسلمانوں سے ہو، جس میں شوہر، میت کے اولیاء اور دوسرے مسلمان سبھی آ جاتے ہوں۔ (فتح القدیر) 2۔ اِلَّاۤ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ: ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، عکرمہ اور ضحاک رحمھما اللہ نے ”بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ“ سے مراد سرکشی اور نافرمانی لی ہے، مگر ابن جریر رحمہ اللہ نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اسے عام رکھا جائے اور یہ فحش کلامی، بد خلقی، ایذا رسانی، زنا اور اس قسم کے جملہ رذائل کو شامل ہو اور مطلب یہ ہو گا کہ اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو تو تم اسے خلع لینے پر مجبور کر سکتے ہو، تاکہ وہ لیا ہوا مال واپس کر دے۔ 3۔ وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ: یہ عورتوں سے متعلق تیسرا حکم ہے کہ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِيْ)) [ ابن ماجہ، النکاح، باب حسن معاشرۃ النساء : ۱۹۷۷، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما۔ ترمذی : ۳۸۹۵۔ الصحیحۃ : ۲۸۵ ]’’تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترہے اور میں تم میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔‘‘ 4۔ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى:یہ بھی ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہنے کی بات کی تکمیل ہے، یعنی اگر کسی اخلاقی کمزوری یا بد صورت ہونے کی وجہ سے تمھیں ان سے نفرت ہو جائے اور ان کو طلاق دینا چاہو تو بھی فوراً طلاق نہ دو، بلکہ بہتر طریقے سے انھیں اپنے پاس رکھو، ہو سکتا ہے کہ ان کی صحبت سے خیر کثیر، یعنی صالح اولاد حاصل ہو جائے یا مال میں برکت ہو جائے اور تمہاری نفرت محبت میں تبدیل ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے بغض نہ رکھے، اگر اسے اس کی کوئی ایک عادت ناپسند ہو گی تو دوسری پسند بھی ہو گی۔‘‘ [ مسلم، الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء : ۱۴۶۷، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اگر نفرت کے سبب تم ان سے علیحدگی اختیار کرنا چاہو تو ہو سکتا ہے کہ اس علیحدگی میں ان کے لیے خیر کثیر مضمر ہو، مثلاً ان کو بہتر خاوند مل جائے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۳۰)۔