سورة الرحمن - آیت 54

مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ ۚ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جنتی ایسے فرشوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہونگے جن کے استر و بیز ریشم کے ہونگے (١) اور دونوں جنتوں کے میوے بالکل قریب ہونگے (٢)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مُتَّكِـِٕيْنَ عَلٰى فُرُشٍ ....: ’’ مُتَّكِـِٕيْنَ ‘‘ ’’وَكِئَ‘‘ سے ’’اِتَّكَأَ يَتَّكِئُ اِتِّكَاءً ‘‘ (افتعال) سے اسم فاعل ’’مُتَّكِئٌ‘‘ کی جمع ہے، پہلو پر کہنی کے سہارے لیٹے ہوئے یا ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے شخص کو کہتے ہیں۔ ’’ فُرُشٍ‘‘ ’’فِرَاشٌ‘‘ کی جمع ہے، جیسے ’’كِتَابٌ‘‘ کی جمع ’’ كُتُبٌ‘‘ ہے۔ ’’بَطَائِنٌ‘‘ ’’ بِطَانَةٌ ‘‘ کی جمع ہے، گدے کے بیرونی حصے کو ’’ ظِهَارَةٌ ‘‘ اور اندرونی حصے کو ’’بِطَانَةٌ ‘‘ کہتے ہیں۔ اردو میں ’’ بِطَانَةٌ ‘‘ کو استر اور ’’ظِهَارَةٌ ‘‘ کو ابرا کہتے ہیں۔ ’’ اِسْتَبْرَقٍ ‘‘ موٹا ریشم جس میں سونے کی تاریں ہوں۔ یعنی اپنے رب سے ڈرنے والے یہ جنتی بے فکری کے ساتھ ایسے بستروں پر ٹیک لگا کر بیٹھے یا لیٹے ہوں گے جن کے استر موٹے ریشم کے ہوں گے۔ جب استر ایسے ہوں گے تو ابرے کس شان کے ہوں گے۔ وَ جَنَا الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ:’’ جَنَا ‘‘ ’’جَنٰي يَجْنِيْ‘‘ (ض) (پھل چننا) سے مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، پھل۔ ’’ دَانٍ ‘‘ ’’دَنَا يَدْنُوْ دُنُوًّا ‘‘ (ن) سے اسم فاعل ہے، قریب۔ یعنی دونوں باغوں کا پھل قریب ہو گا، کھڑے، بیٹھے اور لیٹے جب چاہیں گے چن سکیں گے۔