خُشَّعًا أَبْصَارُهُمْ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنتَشِرٌ
یہ جھکی آنکھوں قبروں سے اس طرح نکل کھڑے ہونگے کہ گویا وہ پھیلا ہوا ٹڈی دل ہے (١)۔
خُشَّعًا اَبْصَارُهُمْ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ ....: ’’ خُشَّعًا ‘‘ ’’خَاشِعٌ‘‘ کی جمع ہے، جیسے ’’رَاكِعٌ‘‘ کی جمع ’’رُكَّعٌ‘‘ ہے۔ یعنی ذلت کی وجہ سے ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔ (دیکھیے شوریٰ : ۴۵) ’’الْاَجْدَاثِ ‘‘ ’’جَدَثٌ‘‘ (دال کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے، قبریں۔ ’’ جَرَادٌ ‘‘ اسم جمع ہے، اس کا واحد ’’جَرَادَةٌ‘‘ ہے، ٹڈیاں جو بے شمار تعداد میں زمین سے نکلتی ہیں اور ہر طرف پھیل جاتی ہیں۔ ’’ مُنْتَشِرٌ ‘‘ پھیلی ہوئی۔ قبروں سے نکلنے والوں کی حالت کو یہاں پھیلی ہوئی ٹڈیوں کے ساتھ اور سورۂ قارعہ میں’’ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ ‘‘ بکھرے ہوئے پروانوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ دونوں ہی جب نکلتے ہیں تو بے شمار تعداد میں ایک دوسرے کے گرد اڑتے، گھومتے اور آپس میں ٹکراتے ہوئے تیزی سے بڑھتے چلے جاتے ہیں، پروانے آگ کی طرف اور ٹڈیاں اس طرف جدھر ان کا رخ ہو جائے۔ اسی طرح قبروں سے نکلنے والے تیزی کے ساتھ صُور کی آواز کی طرف بے شمار پھیلی ہوئی ٹڈیوں کی طرح گرتے پڑتے، چکر کھاتے، ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے بے اختیار دوڑتے چلے جا رہے ہوں گے۔