اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ
قیامت قریب آگئی (١) اور چاند پھٹ گیا (٢)۔
1۔ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ: ’’ اِقْتَرَبَتْ ‘‘ ’’قَرُبَ يَقْرُبُ‘‘ (ک،ع) میں سے باب افتعال کا ماضی معلوم ہے۔ حروف میں اضافے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوتا ہے، جیسے ’’قَدَرَ‘‘ اور ’’اِقْتَدَرَ‘‘ ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’قیامت بہت قریب آ گئی ہے۔‘‘ ویسے تو ہر آنے والی چیز قریب ہی ہے، مگر قیامت کو بہت قریب اس لیے فرمایا کہ دنیا پر گزرے ہوئے وقت کے مقابلے میں باقی رہنے والا وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ اب اس کے فنا اور قیامت کے قیام کا وقت بہت ہی قریب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں، بلکہ قیامت ہی آئے گی۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ((بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ )) [مسلم، الفتن، باب قرب الساعۃ:۲۹۵۰۔ بخاري، : ۶۵۰۳ ] ’’ مجھے اور قیامت کو ان دو (انگلیوں) کی طرح بھیجا گیا ہے۔‘‘ 2۔ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ: یعنی چاند کا پھٹنا اس بات کی علامت ہے کہ قیامت، جس کی تمھیں خبر دی جاتی رہی ہے، بہت قریب آ گئی ہے، کیونکہ جب چاند جیسا عظیم کرہ پھٹ سکتا ہے توزمین و آسمان، سورج اور ستارے بھی پھٹ کر دوسری صورت اختیار کر سکتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ﴾ [ إبراہیم : ۴۸ ] ’’جس دن یہ زمین اور زمین سے بدل دی جائے گی اور سب آسمان بھی اور لوگ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، جو اکیلا ہے، بڑا زبردست ہے۔‘‘ 3۔ قرآن مجید میں ماضی کے صیغے مستقبل کے معنی میں بھی آتے ہیں۔ مقصدیہ بتانا ہوتا ہے کہ ان کا واقع ہونا یقینی ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَ قَالَ الشَّيْطٰنُ لَمَّا قُضِيَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ﴾ [إبراہیم : ۲۲ ] ’’اور شیطان کہے گا، جب سارے کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے وعدہ کیا، سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے تم سے خلاف ورزی کی۔‘‘ اس مقام پر بھی بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند پھٹ جائے گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے کہ یہاں ماضی کا معنی ہی مراد ہے اور آیت کا مطلب یہی ہے کہ چاند پھٹ گیا۔ ایک ہی آیت میں ایک فعل ماضی کا ترجمہ ماضی اور دوسرے فعل ماضی کا ترجمہ مستقبل کرنا ویسے ہی بے جوڑ لگتا ہے کہ کہا جائے ’’قیامت بہت قریب آ گئی اور چاند پھٹ جائے گا۔‘‘ پھر اگر مراد مستقبل میں چاند کا پھٹنا ہوتا تو الفاظ یہ ہونے چاہییں تھے : ’’أَتَي السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ‘‘ ’’قیامت آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔‘‘ پھر دونوں جگہ ماضی کا معنی مستقبل کرنا درست ہوتا۔ اس آیت سے بعد والی آیات سے بھی ظاہر ہے کہ یہ واقعہ ہو چکا ہے، تفصیل آگے آئے گی۔ صحیح احادیث سے بھی چاند کا پھٹنا ثابت ہے اور یہ واقعہ اتنی کثیر سندوں کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اکثر محدثین و مفسرین اسے متواتر قرار دیتے ہیں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ چاند پھٹنے کے واقعہ پر علماء کا اتفاق ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہو چکا ہے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حیران کن معجزات میں سے ایک تھا۔‘‘ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس مقام پر بہت سی احادیث نقل فرمائی ہیں، یہاں چند احادیث نقل کی جاتی ہیں: (1) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( اِنْشَقَّ الْقَمَرُ عَلٰي عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِرْقَتَيْنِ، فِرْقَةً فَوْقَ الْجَبَلِ وَفِرْقَةً دُوْنَهُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْهَدُوْا )) [بخاري، التفسیر، باب: ﴿وانشق القمر....﴾ : ۴۸۶۴ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا، ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا اور ایک ٹکڑا اس کی دوسری جانب۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’گواہ ہو جاؤ۔‘‘ (2) ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : (( اِنْشَقَّ الْقَمَرُ فِيْ زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ )) [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿وانشق القمر....﴾ : ۴۸۶۶ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند پھٹ گیا۔‘‘ (3) انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( سَأَلَ أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ )) [ بخاري، التفسیر، باب: ﴿وانشق القمر....﴾ : ۴۸۶۷ ] ’’اہلِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معجزہ دکھانے کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چاند کا پھٹنا دکھایا۔ ‘‘ (4) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( اِنْشَقَّ الْقَمَرُ بِمَكَّةَ حَتّٰی صَارَ فِرْقَتَيْنِ، فَقَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ أَهْلُ مَكَّةَ هٰذَا سِحْرٌ، يَسْحَرُكُمْ بِهِ ابْنُ أَبِيْ كَبْشَةَ، انْظُرُوا السُّفَّارَ، فَإِنْ كَانُوْا رَأَوْا مَا رَأَيْتُمْ فَقَدْ صَدَقَ وَ إِنْ كَانُوْا لَمْ يَرَوْا مِثْلَ مَا رَأَيْتُمْ فَهُوَ سِحْرٌ سَحَرَكُمْ بِهِ۔ قَالَ فَسُئِلَ السُّفَّارُ قَالَ وَ قَدِمُوْا مِنْ كُلِّ وَجْهٍ فَقَالُوْا رَأَيْنَاهُ )) [ دلائل النبوۃ للبیہقي : ۲ ؍۲۶۶،۲۶۷، و سندہ صحیح ] ’’مکہ میں چاند پھٹ گیا، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو گیا تو مکہ والے کفارِ قریش کہنے لگے: ’’ یہ جادو ہے جو ابن ابی کبشہ نے تم پر کر دیا ہے، جو لوگ سفر میں گئے ہوئے ہیں ان کا انتظار کرو، اگر انھوں نے وہ دیکھا ہے جو تم نے دیکھا ہے تو اس نے واقعی سچ کہا ہے اور اگر انھوں نے وہ نہیں دیکھا جو تم نے دیکھا ہے تو یہ جادو ہے جو اس نے تم پر کر دیا ہے۔‘‘ فرمایا: ’’ تو سفر سے آنے والوں سے پوچھا گیا جو ہر جانب سے آ رہے تھے تو انھوں نے بتایا کہ ہم نے اسے دیکھا ہے۔‘‘ تفسیر ابنِ کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے اس پر لکھا ہے کہ ابن کثیر نے فرمایا : ’’اسے ابن جریر نے بھی روایت کیا ہے اور یہ الفاظ زائد بیان کیے ہیں : (( فَأَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ : ﴿اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ﴾)) ’’یعنی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔‘‘ 4۔ بعض واعظ حضرات بیان کرتے ہیں کہ چاند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کے اشارے سے دو ٹکڑے ہوا، انگلی کے اشارے کا کوئی ثبوت نہیں۔ اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ چاند کا ایک ٹکڑا آپ کے گریبان سے ہو کر نکل گیا، بالکل ہی لغو بات ہے۔ 5۔ انشقاقِ قمر پر کیے جانے والے شبہات اور اعتراضات کے متعلق مفسر عبدالرحمن کیلانی کا کلام بہت عمدہ ہے، وہ یہاں نقل کیا جاتا ہے : ’’آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت اور انشقاقِ قمر کا باہمی تعلق یہ ہے کہ انشقاقِ قمر قربِ قیامت کی ایک نشانی ہے جو واقع ہو چکی ہے، لہٰذا اسے بس اب قریب ہی سمجھو۔ جب کفار نے اپنی آنکھوں سے یہ معجزہ دیکھ لیا تو کہنے لگے کہ یا تو چاند پر جادو کر دیا گیا ہے یا ہماری نظروں پر جو ہمیں ایسا نظر آنے لگا ہے۔ اس حیرانی میں ایک شخص نے کہا کہ اگر ہماری نظر بند کر دی گئی ہے تو آس پاس کے لوگوں سے پوچھ لو۔ چنانچہ آس پاس کے لوگوں نے اس کی تصدیق کر دی، مگر یہ کافر اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے۔ اس آیت پر منکرین معجزات کئی طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ پہلا اعتراض معنی کی تاویل سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صیغۂ ماضی کا معنی استقبال میں لیا جائے گا اور معنی یہ ہو گا کہ ’’جب قیامت قریب آ جائے گی اور چاند پھٹ جائے گا۔‘‘ جیساکہ ’’ اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ‘‘ اور اس جیسی دوسری آیات کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تاویل اور دلیل اس لیے غلط ہے کہ جہاں قیامت کے حوادث کا ذکر آیا ہے، مثلاً آسمان پھٹ جائے گا، ستارے بے نور ہو جائیں گے اور جھڑنے لگیں گے، زمین پر سخت زلزلے آئیں گے، پہاڑ اڑتے پھریں گے وغیرہ، وہاں ان باتوں کو کفار کے سحر کہنے کا کوئی تعلق نہیں اور نہ قرآن میں ایسی آیات کے ساتھ سحر کا ذکر آیا ہے۔ کافروں کا چاند کے پھٹنے کو جادو کہنا اور اس پر کفار کی تکرار ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ایک حِسّی معجزہ تھا جو وقوع پذیر ہو چکا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ فی الواقع ظہور میں آ چکا ہے تو لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اس کا علم ہونا چاہیے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ رات کا ہے، دن کا نہیں، جب اکثر لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر اس وقت آدھی دنیا میں تو ویسے ہی سورج نکلا ہوا تھا جہاں یہ واقعہ نظر نہیں آ سکتا تھا اور باقی آدھی دنیا میں سے بھی صرف ان مقامات پر نظر آ سکتا تھا جو منیٰ کے مشرق میں واقع تھے۔ پھر اس واقعہ کا کوئی اعلان بھی نہیں ہوا تھا، جیسے آج کل جنتریوں اور اخباروں سے معلوم ہو جاتا ہے، یا رصد گاہوں کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے، لہٰذا لوگ کوئی اس بات کے منتظر بھی نہیں بیٹھے تھے کہ چاند پھٹے تو ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ چاند گرہن کئی گھنٹوں تک لگا رہتا ہے، لوگوں کو پہلے خبر بھی دی جا چکی ہوتی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت چاند گرہن لگنے سے غافل ہوتی ہے اور یہ انشقاقِ قمر تو صرف ایک لمحہ کے لیے واقع ہوا تھا، اسے کون دیکھتا؟ اور آس پاس کے لوگوں نے شہادت دے ہی دی تھی۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ایسے اہم واقعہ کا تاریخ میں بھی ذکر ہونا چاہیے تھا۔ اس اعتراض کے کئی جواب ہیں، پہلا یہ کہ سب سے زیادہ مستند تاریخ حدیث کی کتابوں سے ہی دستیاب ہو سکتی ہے اور ان میں یہ واقعہ موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ اس دور میں جیسی اور جتنی توجہ تاریخ نویسی پر دی جاتی تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ تیسرا یہ کہ جب دنیا کے لوگوں کی اکثریت اور ایسے ہی تاریخ نویسوں نے اسے دیکھا ہی نہ ہو تو لکھیں کیا؟ اور چوتھا یہ کہ تاریخ بھی اس واقعہ کے اندارج سے یکسر خالی نہیں۔ تاریخ فرشتہ میں مذکور ہے، مالی بار کے مہاراجہ نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور بالآخر یہ واقعہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنا تھا۔ چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ہیئت دانوں اور منجمین نے بھی اس واقعہ کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر چاند پھٹنے سے اس کی رفتار میں فرق آتا یا وہ اپنا مدار بدل لیتا یا مدار سے ہٹ کر چلنے لگتا تو یہ باتیں اس قابل تھیں کہ ہیئت دان اس کا ذکر کرتے، لیکن جب ان میں سے کوئی چیز بھی واقع نہ ہوئی تو وہ کیا ذکر کریں؟ اور پانچواں اعتراض یہ ہے کہ یہ واقعہ خرقِ عادت ہے اور ان کا دراصل سب سے اہم یہی اعتراض ہے جو انھیں تسلیم کرنے سے روکتا ہے اور وہ ادھر اُدھر ہاتھ مارتے اور مختلف قسم کے اعتراض اور شکوک پیدا کرتے ہیں اور حقیقتاً ان کا یہ انکار اللہ کی قدرتِ کاملہ کا انکار ہے۔ بہرحال یہ بات بھی آج بعید از عقل نہیں رہی۔ ہر سیارے کے پیٹ میں آتشیں مادے یا پگھلتی اور کھولتی ہوئی دھاتیں موجود ہیں جن کا درجہ حرارت ہزار ہا درجہ سنٹی گریڈ ہوتا ہے۔ یہ مہیب لاوے ان عظیم الجثہ کروں کو کسی وقت بھی دو لخت کر سکتے ہیں۔ پھر ان کی مرکزی مقناطیسی قوت، جسے آج کی زبان میں قوتِ ثقل کہتے ہیں وہ ان جدا شدہ ٹکڑوں کو ملا کر جوڑ بھی دیتی ہے اور ایسا عمل فضائے بسیط میں ہوتا رہتا ہے۔ یہ کہکشائیں اسی طرح وجود میں آئی ہیں اور آج بھی یہ عمل بند نہیں ہوابلکہ بدستور جاری ہے۔ علاوہ ازیں شہابِ ثاقب کسی سیارے کے اس طرح سے جدا شدہ ٹکڑے کا نام ہے جو کبھی علیحدہ ہو کر پھر جڑ جاتا ہے، کبھی فضا میں ہی گر کر گم ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار زمین پر بھی آ گرتا ہے۔ فضائے بسیط میں جو کچھ ہو رہا ہے اگر انسان کو اس کا صحیح طور پر علم ہو جائے تو وہ انشقاقِ قمر کے واقعہ پر کبھی تعجب نہ کرے۔ انسان کو کیا معلوم کہ اللہ کی قدرتوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے اور وہ کس قدر حکمتِ بالغہ سے اس نظامِ کائنات کو چلا رہا ہے۔ ‘‘ ( تیسیر القرآن) 6۔ ایک اہم سوال یہاں یہ ہے کہ کفارِ مکہ جب اپنے سوال کے جواب میں اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر ایمان نہیں لائے تو ان پر پہلی قوموں کی طرح عذاب آ جانا چاہیے تھا جو نبیوں کے معجزے دیکھ کر ایمان نہیں لائی تھیں۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ پہلی امتوں کو دکھائے جانے والے معجزات ان کے ایمان لانے کی شرط کے ساتھ مشروط مطالبے پر دکھائے گئے تھے، جبکہ ہماری امت میں ایمان لانے کی شرط کے ساتھ بطورِ عناد جس معجزے کا بھی مطالبہ کیا گیا ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا گیا، بلکہ یہی کہنے کا حکم ہوا : ﴿قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۹۳ ] ’’تو کہہ میرا رب پاک ہے، میں تو ایک بشر کے سوا کچھ نہیں جو رسول ہے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۹۰تا۹۳) کی تفسیر۔ اس مقصد کے لیے آپ کو ایک ہی معجزہ پیش کرنے کا حکم تھا اور وہ ہے قرآن مجید کہ ہمت ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر لے آؤ۔ اور یہ اس امت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس معجزے یا کسی بھی معجزے پر ایمان نہ لانے والوں پر عذابِ استیصال یعنی ایسا عذاب نہیں آیا اور نہ آئے گا جو ان کا نام و نشان ہی مٹا دے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ عنکبوت (51،50) کی تفسیر۔ البتہ اس شرط کے بغیر لوگوں کی درخواست پر بہت سے معجزے صادر ہوئے ہیں، مثلاً سورۂ بنی اسرائیل( ۹۰ تا۹۳) میں جن معجزوں کا کفار نے بطورِ شرط مطالبہ کیا اور ان کا مطالبہ پورا نہیں کیا گیا، ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کر دیں، لیکن ایسی شرط کے بغیر یہ معجزہ متعدد بار واقع ہوا ہے جن میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی جاری ہونے اور حدیبیہ کے موقع پر کنویں میں تیر ڈالنے سے پانی جاری ہونے کے واقعات جو سب جانتے ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (( إِنَّكُمْ تَعُدُّوْنَ الْآيَاتِ عَذَابًا وَ إِنَّا كُنَّا نَعُدُّهَا عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرَكَةً لَقَدْ كُنَّا نَأْكُلُ الطَّعَامَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَسْمَعُ تَسْبِيْحَ الطَّعَامِ قَالَ وَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ فَوَضَعَ يَدَهُ فِيْهِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَّ عَلَی الْوَضُوْءِ الْمُبَارَكِ وَالْبَرَكَةُ مِنَ السَّمَاءِ حَتّٰی تَوَضَّأْنَا كُلُّنَا )) [ترمذي، المناقب، باب فی قول علي في استقبال کل جبل و شجر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالتسلیم: ۳۶۳۳، و قال حسن صحیح و قال الألباني صحیح ] ’’تم نشانیوں کو عذاب شمار کرتے ہو جبکہ ہم انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں برکت شمار کرتے تھے۔ چنانچہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور ہم کھانے کی تسبیح سن رہے ہوتے تھے۔‘‘ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس میں رکھا تو پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پھوٹنے لگا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس بابرکت وضو کے پانی پر آ جاؤ اور برکت آسمان سے ہے۔‘‘ یہاں تک کہ ہم سب نے وضو کر لیا۔‘‘ انشقاقِ قمر کامعجزہ بے شک اہلِ مکہ کے اس سوال کے جواب میں صادر ہوا کہ ہمیں کوئی نشانی دکھائیں، مگر یہ ان کے اس مطالبے کے جواب میں نہیں ہوا کہ آپ ہمیں چاند کو دو ٹکڑے کر کے دکھائیں (جن روایتوں میں یہ بات ذکر ہوئی ہے وہ سب ضعیف ہیں) بلکہ انھیں ایک نشانی کے طور پر دکھایا گیا جسے انھوں نے جادو کہہ کر ماننے سے انکار کر دیا، فرمایا : ﴿وَ اِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَ يَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ﴾ [ القمر : ۲ ] ’’اور اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (یہ) ایک جادو ہے جو گزر جانے والا ہے۔‘‘ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ اس امت میں بھی معجزات دیکھ کر ایمان نہ لانے والوں پر عذاب آیا، مگر اس کا طریقہ تبدیل کر دیا گیا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اب ایسے لوگوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں عذاب دینے کا فیصلہ فرمایا اور فی الواقع ایسے تمام منکروں کو بدر اور دوسرے مقامات پر ذلت آمیز عذاب سے دوچار ہونا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَ يُخْزِهِمْ وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَ يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ (14) وَ يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ وَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ﴾ [ التوبۃ : ۱۴، ۱۵ ] ’’ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔ اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ ‘‘