عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ
اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا۔
عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى: بعض لوگ اس سے مراد اللہ تعالیٰ لیتے ہیں مگر یہ درست نہیں، بلکہ اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ تعالیٰ کی وحی پہنچائی۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ دوسری جگہ واضح طور پر یہ صفت جبریل علیہ السلام کی بیان ہوئی ہے، فرمایا : ﴿اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ (19) ذِيْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ (20) مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ ﴾ [التکویر : ۱۹ تا ۲۱] ’’بلاشبہ یقیناً یہ ایک ایسے پیغام پہنچانے والے کا قول ہے جو بہت معزز ہے۔ بڑی قوت والا ہے، عرش والے کے ہاں بہت مرتبے والا ہے۔ وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، نہایت امانت دار ہے۔‘‘ ’’ الْقُوٰى ‘‘ ’’قُوَّةٌ‘‘ کی جمع ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جبریل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک نہیں بہت سی قوتیں عطا فرمائی ہیں اور ہر قوت ہی نہایت مضبوط اور زبردست ہے، بھلا جسے اللہ تعالیٰ نہایت مضبوط قوتوں والا فرمائے اس کی قوتوں کا کون اندازہ کر سکتا ہے۔ سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کی اصل صورت میں صرف دو دفعہ دیکھا اور اس دیکھنے سے جو کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گزری اس سے ان کی عظمت و ہیبت، حسن و جمال اور قوت و وسعت کا تھوڑا سا اندازہ ہوتا ہے۔ پھر ہزاروں سالوں کے فاصلے لمحوں میں طے کرنے سے ان کی رفتار کی سرعت و قوت کا معمولی اندازہ ہوتا ہے۔