أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ
یا کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں؟ (١) یا (ان خزانوں کے) یہ دروغہ ہیں۔ (٢)
1۔ اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىِٕنُ رَبِّكَ ....: یہ کفار کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو کیوں رسول بنایا گیا، مکہ اور طائف کے سرداروں میں سے کسی کو رسالت کے لیے کیوں نہ چنا گیا؟ فرمایا، یہ فیصلہ کرنا کہ کس کو رسول بنا کر بھیجا جائے مالک کا کام ہے۔ اب یہ لوگ اگر اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے رسول کا انکار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو تیرے رب کے خزانوں کے مالک یہ ہیں، جسے چاہیں دیں جسے چاہیں نہ دیں، یا یہ کہ مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر اس پر حکم انھی کا چلتا ہے۔اب یہ خود ہی بتائیں کہ ان دونوں میں سے ان کا دعویٰ کیا ہے؟ مزید دیکھیے سورۂ ص(۸ تا ۱۰) اور سورۂ زخرف(۳۱،۳۲)۔ خلاصہ یہ کہ کفار کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے انکار کی کوئی عقلی دلیل نہیں۔ 2۔ آیت کی تفسیر اس طرح بھی ہو سکتی ہے کہ یا یہ لوگ اس لیے اکیلے رب کی عبادت نہیں کرتے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول نہیں مانتے کہ تیرے رب کے خزانوں کے مالک وہی ہیں، یا ان پر انھی کا حکم چلتا ہے، اس لیے وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں، جو چاہیں کرتے پھریں؟ ظاہر ہے ایسا بھی ہرگز نہیں۔