سورة الطور - آیت 35

أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ (١) یا خود پیدا کرنے والے ہیں۔ (٢)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ ....: اس سے پہلے تین سوال یہ ثابت کرنے کے لیے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول اور قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے، اب یہاں سے اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت اور قدرتِ کاملہ کو ثابت کرنے کی بات کا آغاز فرمایا۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے جو دعوت پیش کی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارا خالق ہے، اس لیے تمھیں اسی کی عبادت کرنی چاہیے، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ آخر اس پر ان کے بگڑنے کی کیا کوئی معقول وجہ ہے؟ اگر یہ رب تعالیٰ کو خالق نہیں مانتے تو بتائیں کہ کیا وہ کسی بنانے والے کے بغیر ہی بن گئے ہیں؟ ظاہر ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ہر بنی ہوئی چیز کا کوئی بنانے والا ضرور ہوتا ہے۔ یا پھر انھوں نے اپنے آپ کو خود بنا لیا ہے؟ یہ پہلی بات سے بھی زیادہ ناممکن بات ہے، کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی چیز خالق بھی ہو اور مخلوق بھی۔ یا پھر یہ بتائیں کہ یہ آسمان و زمین انھوں نے بنائے ہیں؟ ظاہر ہے ایسا بھی نہیں، کیونکہ یہ کائنات اس وقت کی بنی ہوئی ہے جب ان لوگوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے تین سوال کیے ہیں جن کا جواب ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ وہ بالکل ظاہر ہے کہ نہ یہ لوگ کسی بنانے والے کے بغیر بنے ہیں، نہ یہ اپنے آپ کو خود بنانے والے ہیں اور نہ کائنات ان کی بنائی ہوئی ہے، بلکہ انھیں اور ساری کائنات کو بنانے والا کوئی اور ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اس حقیقت کو وہ بھی مانتے تھے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ﴾ [ الزخرف : ۸۷ ] ’’اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ،پھر کہاں بہکائے جاتے ہیں۔ ‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ﴾ [ لقمان : ۲۵ ] ’’اوربلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔‘‘ بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ: یعنی بات یہ نہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق نہیں مانتے اور اس کا اقرار نہیں کرتے، بلکہ اصل یہ ہے کہ اقرار کے باوجود انھیں اس بات کا یقین نہیں ہے، کیونکہ اگر انھیں واقعی یقین ہوتا کہ ہمارا خالق اللہ تعالیٰ ہے تو اسی کی عبادت کرتے، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بناتے اور نہ اس کی طرف دعوت دینے والے کی اس طرح مخالفت کرتے۔