سورة الطور - آیت 4

وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہ آباد گھر کی (١)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الْبَيْتِ الْمَعْمُوْرِ: آباد گھر۔ اس کے متعلق بھی مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، بعض نے فرمایا، اس سے مراد حدیث میں مذکور ساتویں آسمان پر موجود ایک مکان ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (( ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيْلُ فَقِيْلَ مَنْ هٰذَا؟ قَالَ جِبْرِيْلُ، قِيْلَ وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيْلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيْمَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَی الْبَيْتِ الْمَعْمُوْرِ وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَكٍ لَا يَعُوْدُوْنَ إِلَيْهِ )) [مسلم، الإیمان، باب الإسراء برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی السمٰوات....: ۱۶۲ ] ’’پھر ہمارے ساتھ ساتویں آسمان کی طرف چڑھے تو جبریل نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، کہا گیا : ’’کون ہے؟‘‘ کہا : ’’جبریل ہوں۔‘‘ کہا گیا : ’’اور آپ کے ساتھ کون ہے؟‘‘ کہا : ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘ کہا گیا : ’’کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟‘‘ کہا : ’’ہاں، پیغام بھیجا گیا ہے۔‘‘ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو میں نے ابراہیم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اپنی پیٹھ کی ٹیک بیت المعمور (آباد گھر) کے ساتھ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے اور اس گھر میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، (اور جو ایک دفعہ داخل ہو جاتے ہیں وہ) پھر دوبارہ کبھی اس میں داخل نہیں ہوتے۔ ‘‘ بعض مفسرین نے فرمایا اس سے مراد کعبہ ہے جو ہر وقت عمرہ، حج، قیام اور طواف کرنے والوں کے ساتھ آباد رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’ الْبَيْتِ الْمَعْمُوْرِ ‘‘ کے لفظ میں ان دونوں عظیم الشان گھروں کے علاوہ ہر آباد گھر بھی شامل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت کا کھلا نشان ہے کہ اس نے زمین کے ہر حصے کو آباد کر دیا ہے۔ شہروں، بستیوں، میدانوں، صحراؤں، پہاڑوں، سمندروں غرض زمین کے جس حصے کو دیکھو وہیں آبادی نظر آئے گی۔ حتیٰ کہ قطب شمالی، جہاں ہر طرف برف ہی برف ہے، وہاں بھی آبادی ملے گی۔ یعنی یہ آباد گھر (زمین) شاہد ہے کہ جس نے ابتداءً اتنی آبادی پھیلا دی ہے جب کچھ بھی نہیں تھا، تو وہ انھیں دوبارہ زندہ کر کے مجرموں کو عذاب دے سکتا ہے اور یقیناً دے گا، کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو انسان کو پیدا کرنا بے مقصد ٹھہرتا ہے، جبکہ ایسا نہیں، فرمایا : ﴿ اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى﴾ [ القیامۃ : ۳۶ ] ’’کیا انسان گمان کرتا ہے کہ اسے بغیر پوچھے ہی چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘