وَكِتَابٍ مَّسْطُورٍ
اور لکھی ہوئی کتاب کی (١)
وَ كِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ (2) فِيْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ:’’ مَسْطُوْرٍ ‘‘ ترتیب اور خوب صورتی کے ساتھ سطر میں لکھی ہوئی کتاب۔ ’’ رَقٍّ ‘‘ کا مادہ رقت اور باریکی کے لیے استعمال ہوتا ہے، مراد باریک چمڑا یا جھلی ہے جو مضبوط اور دیرپا ہونے کی وجہ سے لکھنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ کاغذ یا کسی طرح کا باریک ورق بھی ’’ رَقٍّ ‘‘ ہے۔ ’’ مَنْشُوْرٍ ‘‘ کھلا ہوا، جسے کھول کر پڑھا جا سکے۔ اس ’’کتاب مسطور‘‘ کے متعلق مفسرین کے متعدد اقوال ہیں، لوح محفوظ، اعمال نامے، تورات، آسمانی کتابیں اور قرآن مجید وغیرہ۔ لفظ عام ہونے کی وجہ سے ’’کتاب مسطور‘‘ میں یہ تمام کتابیں اور انسان، جن یا فرشتے جو کچھ لکھتے ہیں وہ سب کچھ شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لکھنا اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے بہت بڑی نشانی ہے، خواہ اس نے خود لکھا ہو، جیسے لوح محفوظ ہے، یا اس کے فرشتوں نے لکھا ہو، جیسے نامہ ہائے اعمال ہیں، یا اس کے سکھانے سے انسانوں نے لکھا ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ’’اکرم‘‘ ہونے کا ذکر لکھنے کی تعلیم دینے کے حوالے سے فرمایا : ﴿ اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ (3) الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ﴾ [العلق:۳،۴] ’’پڑھ اور تیرا رب ہی سب سے زیادہ کرم والا ہے۔ وہ جس نے قلم کے ساتھ سکھایا۔‘‘ اور سورۂ قلم میں تمام لکھنے والوں کی لکھی ہوئی تحریروں کو شاہد کے طور پر پیش کرنے کے لیے ان کی قسم کھائی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا يَسْطُرُوْنَ ﴾ [القلم: ۱] ’’نٓ ۔قسم ہے قلم کی! اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں!‘‘ یہاں قیامت کے قیام اور اس میں عذاب واقع ہونے کا ایک شاہد ’’کتاب مسطور‘‘ کو قرار دیا ہے۔