سورة الذاريات - آیت 58

إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ: ’’ هُوَ ‘‘ ضمیر فصل لانے سے اور ’’ الرَّزَّاقُ ‘‘ خبر پر ’’الف لام‘‘ لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا کہ رزاق صرف اللہ تعالیٰ ہے، اور کوئی نہیں۔ ’’ الرَّزَّاقُ ‘‘ مبالغے کا صیغہ ہے، بے حد رزق دینے والا۔ ’’ اِنَّ ‘‘ تعلیل (علت بیان کرنے) کے لیے ہوتا ہے، اس میں پچھلی بات کی علت بیان فرمائی۔ یعنی میں نہ جن و انس سے کسی طرح کا رزق چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں، کیونکہ رزق دینے والا تو صرف میں ہوں، میرے سوا کوئی رزق دینے والا ہے ہی نہیں اور میں کھانے پینے اور ہر ضرورت سے غنی ہوں، تو میں جن و انس سے رزق کا یا کھلانے کا ارادہ کیوں کروں گا؟ دوسری جگہ فرمایا : ﴿قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ هُوَ يُطْعِمُ وَ لَا يُطْعَمُ ﴾ [الأنعام: ۱۴ ] ’’کہہ دے کیا میں اللہ کے سوا کوئی مالک بناؤں جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے، حالانکہ وہ کھلاتا ہے اور اسے نہیں کھلایا جاتا۔‘‘ 2۔ سیاق کا تقاضا یہ تھا کہ کہا جاتا : ’’إِنِّيْ أَنَا الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ‘‘ کہ (نہ میں ان سے کسی رزق کا ارادہ کرتا ہوں اور نہ یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں) کیونکہ میں ہی تو بے حد رزق دینے والا، طاقت والا، نہایت مضبوط ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح پڑھنا بھی ثابت ہے، چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح پڑھایا : (( إِنِّيْ أَنَا الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ )) [ أبو داؤد، الحروف والقرائات ، باب : ۳۹۹۳۔ ترمذي : ۲۹۴۰، و صححہ الألباني ] مصحف امام میں ’’ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ‘‘ ہے اور متواتر قراء ت یہی ہے۔ ’’إِنِّيْ أَنَا الرَّزَّاقُ‘‘ کے بجائے ’’ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ‘‘ کہنے میں لفظ ’’ اللّٰهَ ‘‘ میں آنے والی تمام صفات، مثلاً اس کے جلال، اس کی کبریائی اور عظمت کا اظہار مقصود ہے۔ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ: ’’ ذُو الْقُوَّةِ ‘‘ ’’ ذُو ‘‘ کا لفظ کسی اہم چیز کا مالک ہونے کے لیے آتا ہے، مثلاً ’’ذُوْ مَالٍ‘‘ اور ’’ذُوْ شَرَفٍ‘‘ یعنی ساری قوت کا مالک۔ ’’ الْمَتِيْنُ ‘‘ نہایت مضبوط۔ جسے کوئی نہ اس کے ارادے سے ہٹا سکتا ہے اور نہ اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔