وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ
اور سن رکھیں (١) کہ جس دن ایک پکارنے (٢) والا قریب ہی جگہ سے پکارے گا (٣)
1۔ وَ اسْتَمِعْ ....: پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی بے ہودہ گوئی پر صبر اور اپنی تسبیح و تحمید کا حکم دیا، اس آیت میں آپ کی تسلی کے لیے قیامت کے دن کا ذکر فرمایا کہ تھوڑا صبر کریں ان کی جزا کے لیے قیامت کا دن آیا ہی چاہتا ہے۔ ابن عطیہ نے ’’ اسْتَمِعْ ‘‘ کا معنی ’’ اِنْتَظِرْ ‘‘ کیا ہے، یعنی صبر کے ساتھ اس دن کا انتظار کریں…۔ اگر اس کا لفظی معنی ’’کان لگا کر سن‘‘ کیا جائے تو اس سے مراد بھی آپ کو تسلی دینا ہے کہ قیامت اتنی قریب ہے گویا اس میں پکارنے والے کی منادی کی آواز آپ کے کانوں میں آ رہی ہے۔ زمخشری نے فرمایا : ’’ وَ اسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کان لگا کر سن قیامت کے دن کا حال جو میں تمھیں بتانے لگا ہوں۔‘‘ 2۔ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ: اس سے مراد صور میں دوسری دفعہ پھونکے جانے کا وقت ہے، جب فرشتہ صور میں پھونک مار کر سب لوگوں کو قبروں سے نکل کر محشر میں جمع ہو جانے کے لیے آواز دے گا۔ دیکھیے سورۂ قمر (۶ تا ۸)۔ 3۔ مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ: یعنی قبروں میں پڑے ہوئے ہر شخص کو وہ آواز بالکل قریب سے آتی ہوئی سنائی دے گی۔ موجودہ سائنسی ایجادات سے یہ بات سمجھنا بہت آسان ہو گیا ہے۔