لَّقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ
یقیناً تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پردہ ہٹا دیا پس آج تیری نگاہ بہت تیز ہے۔
1۔ لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا: ’’غَفْلَةٍ‘‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’بڑی غفلت‘‘ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ الفاظ محذوف ہیں کہ ’’ہر کافر و مشرک سے کہا جائے گا کہ…۔‘‘ یہ آیت بھی دلیل ہے کہ ’’كُلُّ نَفْسٍ‘‘ سے مراد کفار ہیں، کیونکہ وہی آخرت سے غافل ہیں، مومن تو آخرت کا یقین رکھتے ہیں اور اس کی فکر میں رہتے ہیں۔ کفار کو یہ بات ذلیل کرنے کے لیے طنز کے طور پر کہی جائے گی۔ 2۔ فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَآءَكَ ....: یعنی تیری آنکھوں پر پڑا ہوا غفلت کا پردہ، جس کی وجہ سے تو آخرت کا انکار کرتا تھا، وہ پردہ اب ہم نے دور کر دیا ہے، اس لیے تیری نظر تیز ہو چکی ہے اور تو اپنی آنکھوں کے ساتھ ان تمام حقیقتوں کو دیکھ سکتا ہے جن کا انکار کر تا تھا۔