وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں (١) اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں (٢)
1۔ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ: وسوسہ کا اصل معنی وہ ہلکی یا دبی ہوئی حرکت یا آواز ہے جو عام طور پر محسوس نہ ہوتی ہو۔ اس سے مراد وہ بات بھی ہوتی ہے جو بالکل آہستہ آواز سے کسی کے کان میں کہی جائے اور صرف اسی کو سنائی دے اور وہ بات بھی جو بغیر آواز کے کسی کے دل میں ڈال دی جائے، جیسے شیطان یا نفس انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ قیامت کے منکروں کے اس شبہ کا جواب کہ جب ہم مر کر مٹی ہو گئے تو دوبارہ کیسے زندہ کیے جائیں گے، اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ ہم انسان کے مٹی ہو جانے والے ہر ذرے کو جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہے، وہ نہ ہمارے علم سے باہر ہے اور نہ ہماری دسترس اور قدرت سے، ہم جب چاہیں گے اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے، اب فرمایا خاک کے ذرّات کا وجود تو پھر بھی باقی رہتا ہے اور نظر آتا ہے، ہم تو انسان کی وہ چیزیں بھی جانتے ہیں جو اس سے بھی زیادہ مخفی ہیں اور بظاہر ان کا وجود بھی باقی نہیں رہتا، کیونکہ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے تو ہم سے بڑھ کر اسے کون جان سکتا ہے؟ فرمایا: ﴿ اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ﴾ [الملک: ۱۴] ’’کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور وہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ چنانچہ ہم اس کے اقوال و افعال ہی کو نہیں اس کی ان باتوں کو بھی جانتے ہیں جن کا خیال اور وسوسہ اس کا نفس اس کے دل میں ڈالتا ہے۔ سو ہم صرف اسے زندہ ہی نہیں کریں گے، بلکہ زندہ کرنے کے بعد اس کے تمام اعمال کا محاسبہ بھی کریں گے اور محاسبے کے لیے اگرچہ ہمارا علم ہی کافی ہے، مگر ہم نے حجت پوری کرنے کے لیے اس کے ہر قول و فعل کو فرشتوں کے ذریعے سے لکھ کر محفوظ کرنے کا بھی بندوبست کیا ہے۔ 2۔ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ: ’’ الْوَرِيْدِ ‘‘ دل سے نکلنے والی رگ جس کے کٹنے سے انسان مر جاتا ہے۔ دل میں اس کا نام ’’وتین‘‘ ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ ﴾ [ الحاقۃ : ۴۶ ] ’’پھر ہم اس کی جان کی رگ کاٹ دیتے۔‘‘ اور گردن میں اس کا نام ’’وريد ‘‘ ہے، جو ’’وَرَدَ يَرِدُ‘‘ سے ’’فَعِيْلٌ‘‘ کے وزن پر ہے، کیونکہ خون دل سے اس میں وارد ہوتا ہے۔ ’’ حَبْلِ ‘‘ کا معنی بھی رگ ہے۔ ’’ حَبْلِ ‘‘ کی اضافت ’’ الْوَرِيْدِ ‘‘ کی طرف بیانیہ ہے، یعنی وہ رگ جو ورید ہے، جیسا کہ مسجد الجامع کی اضافت ہے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ’’گردن کی رگ مراد ہے جس میں جان پھرتی ہے دل سے دماغ تک۔ اس کے کٹنے سے موت ہے۔‘‘ 3۔ ’’ہم اس کی رگِ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘ کیونکہ انسان کے جسم کے حصے تو ایک دوسرے کو چھپائے ہوئے ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی۔ مفسر ابنِ کثیر نے یہاں ’’ نَحْنُ‘‘ سے مراد فرشتے لیے ہیں، جیسا کہ سورۂ واقعہ کی آیت (۸۵) : ﴿وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ ﴾ (اور ہم تم سے زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں اور لیکن تم نہیں دیکھتے) میں بعض ائمہ نے فرشتوں کا قریب ہونا مراد لیا ہے۔ اگرچہ اس معنی کی بھی گنجائش ہے، مگر الفاظ کے ظاہر کا تقاضا یہی ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ اپنے متعلق فرما رہے ہیں اور اس بات کا یقین اور احساس کہ میرا رب میری رگِ جاں سے بھی زیادہ مجھ سے قریب ہے، انسان کو گناہوں کے ارتکاب سے زیادہ باز رکھنے والا اور اس سے محبت پیدا کرنے کا زیادہ باعث ہے۔ فتح البیان میں ہے، قشیری نے فرمایا : ’’ فِيْ هٰذِهِ الْآيَةِ هَيْبَةٌ وَ فَزَعٌ وَ خَوْفٌ لِقَوْمٍ وَ رَوْحٌ وَ أُنْسٌ وَ سُكُوْنُ قَلْبٍ لِقَوْمٍ ‘‘ ’’اس آیت میں کچھ لوگوں کے لیے ہیبت، گھبراہٹ اور خوف کا اور کچھ لوگوں کے لیے راحت، انس اور سکونِ قلب کا سامان موجود ہے۔‘‘ 4۔ قرآن مجید نے صریح الفاظ میں اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا بیان فرمایا ہے : ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى ﴾ [ طٰہٰ : ۵ ] ’’وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا۔ ‘‘ پھر اس کا انسان کے قریب ہونے کا کیا مطلب ہے؟ یہ بحث ان شاء اللہ سورۂ حدید کی آیت (۴) : ﴿ وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ﴾ میں آئے گی۔