يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے (١) اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے (٢) ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے (٣) یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔
1۔ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى: پچھلی آیات میں جن چھ گناہوں سے منع فرمایا ان کا بنیادی سبب اپنے آپ کو اونچا اور دوسروں کو نیچا سمجھنا ہے۔ جاہلیت میں اپنے قبیلے کی خوبیوں پر فخر اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کی بیماری عام تھی۔ اس کی وجہ سے ہر قبیلے کے شاعر اور خطیب اپنے قبیلے کی برتری ثابت کرنے کے لیے دوسرے قبیلے کو استہزا، تمسخر اور طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے، اس کے لیے وہ ان کے عیب تلاش کرتے، جاسوسی کرتے، غیبت، بہتان اور ہجو کا بازار گرم رکھتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے کئی قبیلوں کو بالکل ہی لوگوں کی نگاہوں سے گرا دیا۔ دنیا میں اپنی برتری پر فخر کا باعث کسی خاص قبیلے یا قوم میں پیدا ہونا ہی نہیں رہا، اس کے علاوہ بھی کئی چیزوں کو اپنے لیے باعثِ فخر اور دوسروں پر برتری کی دلیل قرار دیا گیا۔ چنانچہ رنگ، نسل، وطن اور زبان کی بنا پر نوعِ انسان تقسیم ہوئی اور ہر طبقے نے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور دوسروں کو حقیر قرار دیا، جس کے نتیجے میں بے شمار جنگیں ہوئیں اور لاکھوں کروڑوں لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے۔ وطن سے بے وطن ہوئے، غربت، بیماری اور بے آبروئی کا نشانہ بنے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پانچ آیات میں ’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ کے ساتھ خطاب کے بعد یہاں تمام انسانوں کو مخاطب کرکے فرمایا ’’ يٰاَيُّهَا النَّاسُ ‘‘ کہ اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت (آدم و حوا علیھما السلام ) سے پیدا کیا ہے، اس لیے انسان ہونے میں تم سب برابر ہو۔ کسی خاص قوم، قبیلے یا ملک میں پیدا ہونے کی وجہ سے، یا کسی رنگ یا زبان کی وجہ سے کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں، کیونکہ اصل سب کی ایک ہے۔ پھر کسی قوم، ملک یا قبیلے میں پیدا ہونے یا کسی رنگ یا زبان والا ہونے میں کسی کا اپنا کوئی دخل یا اختیار نہیں، یہ سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس لیے ان میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی نعمت یا عطیہ تو ہو سکتی ہے، جس پر اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، مگر دوسروں پر برتری کا باعث نہیں ہو سکتی، کیونکہ برتری اس چیز میں کامیابی کی بدولت حاصل ہوتی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دے کر دنیا میں بھیجا ہے اور وہ ہے اللہ کا تقویٰ۔ اس لیے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت والا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔ اس کے بغیر کسی عربی کو عجمی پر یا گورے کو کالے پر یا آزاد کو غلام پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ ہاں، تقویٰ کے ساتھ فضیلت کی کوئی اور وجہ بھی جمع ہو جائے تو اسے برتری حاصل ہو گی، جیسے کسی کو متقی ہونے کے ساتھ قریشی یا ہاشمی ہونے کا شرف بھی حاصل ہو، یا ایسی قوم کا فرد ہونے کا جو شجاعت یا ذہانت یا کسی اور خوبی میں معروف ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دو آدمی قرآن کی قراء ت میں برابر ہوں تو امامت کے وقت ان میں سے بڑی عمر والے کو جوان پر مقدم کیا جائے گا۔ 2۔ وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ: ’’ شُعُوْبًا ‘‘ ’’شَعْبٌ‘‘ (شین کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے، بہت بڑا قبیلہ، جیسے ربیعہ، مضر، اوس اور خزرج وغیرہ ۔ یہ ان چھ طبقوں میں سب سے پہلا طبقہ ہے جن میں عرب تقسیم ہوتے ہیں۔ وہ چھ طبقے یہ ہیں: (1) شعب (2) قبیلہ (3) عمارہ (4) بطن (5) فخذ (6) فصیلہ۔ شعب میں کئی قبائل ہوتے ہیں، قبیلہ میں کئی عمائر، عمارہ میں کئی بطون، بطن میں کئی افخاذ، اور فخذ میں کئی فصائل ہوتے ہیں۔ چنانچہ عرب میں خزیمہ شعب، کنانہ قبیلہ، قریش عمارہ، قصی بطن، ہاشم فخذ اور عباس فصیلہ ہیں۔ بعض اوقات ان میں سے ایک لفظ دوسرے کی جگہ بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔ شعب کا معنی شاخ ہے، اسے شعب اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان سے قبائل کی شاخیں نکلتی ہیں۔ قرآن مجید میں ان چھ طبقوں میں سے تین کا ذکر آیا ہے، دو کا اس آیت میں اور ایک کا سورئہ معارج میں، فرمایا : ﴿ وَ فَصِيْلَتِهِ الَّتِيْ تُـْٔوِيْهِ﴾ [ المعارج : ۱۳ ] ’’اور اپنے خاندان کو جو اسے جگہ دیا کرتا تھا۔‘‘ (قرطبی و شنقیطی) 3۔ لِتَعَارَفُوْا: یعنی قوموں، قبیلوں یا خاندانوں میں تقسیم کا مطلب کسی کی برتری نہیں، بلکہ ہم نے یہ تقسیم تمھاری ایک دوسرے سے پہچان کے لیے بنائی ہے۔ مثلاً عبد اللہ نام کے کئی آدمی ہیں، ان میں سے ایک کی تعیین قریشی، اس کے بعد ہاشمی اور اس کے بعد عباسی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ اس پہچان ہی کے ذریعے سے آدمی اپنی رشتہ داری سے آگاہ ہوتا ہے اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتا اور صلہ رحمی کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( تَعَلَّمُوْا مِنْ أَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُوْنَ بِهِ أَرْحَامَكُمْ، فَإِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ فِي الْأَهْلِ، مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ، مَنْسَأَةٌ فِي الْأَثَرِ )) [ ترمذي، البر والصلۃ، باب ما جاء في تعلیم النسب : ۱۹۷۹، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ، وقال الألباني صحیح ] ’’اپنے نسب سیکھو، جن کے ذریعے سے تم اپنی رشتہ داریاں ملاؤ، کیونکہ رشتہ داری کو ملانا رشتہ داروں میں محبت، مال میں ثروت اور زندگی میں اضافے کا باعث ہے۔‘‘ 4۔ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالْآبَاءِ، مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَ فَاجِرٌ شَقِيٌّ، أَنْتُمْ بَنُوْ آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ لَيَدَعَنَّ رِجَالٌ فَخْرَهُمْ بِأَقْوَامٍ إِنَّمَا هُمْ فَحْمٌ مِنْ فَحْمِ جَهَنَّمَ، أَوْ لَيَكُوْنُنَّ أَهْوَنَ عَلَی اللّٰهِ مِنَ الْجِعْلاَنِ الَّتِيْ تَدْفَعُ بِأَنْفِهَا النَّتْنَ )) [ أبو داؤد، الأدب، باب في التفاخر بالأحساب : ۵۱۱۶، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ و قال الألباني صحیح ] ’’اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور اس کے آبا و اجداد پر فخر کو ختم کر دیا ہے۔ (آدمی دو ہی قسم کے ہیں) متقی مومن ہے یا بدبخت فاجر۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھے۔ کچھ آدمی ایسے لوگوں پر اپنا فخر ترک کر دیں گے جو جہنم کے کوئلوں میں سے محض ایک کوئلہ ہیں، یا پھر وہ (فخر کرنے والے) اللہ تعالیٰ کے سامنے پاخانے کے کیڑوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوں گے، جو گندگی کو اپنی ناک کے ساتھ دھکیلتے رہتے ہیں۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : (( أَيُّ النَّاسِ أَكْرَمُ؟ )) ’’لوگوں میں سب سے عزت والا کون ہے ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَكْرَمُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاهُمْ )) ’’ان میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’ہم آپ سے اس کے متعلق نہیں پوچھ رہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوْسُفُ نَبِيُّ اللّٰهِ ابْنُ نَبِيِّ اللّٰهِ ابْنِ نَبِيِّ اللّٰهِ ابْنِ خَلِيْلِ اللّٰهِ ))’’تو سب سے زیادہ عزت والے یوسف علیہ السلام ہیں جو اللہ کے نبی ہیں، نبی کے بیٹے ہیں، دادا بھی نبی ہے اور پردادا اللہ کا خلیل ہے۔‘‘ انھوں نے کہا: ’’ہم آپ سے اس کے متعلق بھی نہیں پوچھ رہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُوْنِّيْ؟ )) ’’تو پھر تم مجھ سے عرب کے خاندانوں کے متعلق پوچھ رہے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’جی ہاں!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلاَمِ إِذَا فَقِهُوْا )) [بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿ لقد کان في یوسف و إخوتہ....﴾: ۴۶۸۹ ] ’’تو جاہلیت میں جو تم میں سب سے بہتر تھے وہی اسلام میں تم سب سے بہتر ہیں، جب وہ (دین کی) سمجھ حاصل کر لیں۔‘‘ ابونضرہ کہتے ہیں کہ مجھے اس صحابی نے بیان کیا جس نے ایام تشریق کے درمیان والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَا أَيُّهَا النَّاسُ! أَلاَ إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَ إِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلٰی أَعْجَمِيٍّ، وَلاَ لِعَجَمِيٍّ عَلٰی عَرَبِيٍّ، وَلاَ لِأَحْمَرَ عَلٰی أَسْوَدَ، وَلاَ أَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ، إِلاَّ بِالتَّقْوٰی )) [مسند أحمد :5؍411، ح : ۲۳۴۸۹، قال شعیب الأرنؤوط إسنادہ صحیح] ’’اے لوگو! سن لو! تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ ایک ہے۔ سن لو! نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی سرخ کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی سرخ پر، مگر تقویٰ کی بنا پر۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ لَا يَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِكُمْ وَ أَمْوَالِكُمْ وَ لٰكِنْ يَنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ )) [مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم....:۳۴؍۲۵۶۴] ’’اللہ تعالیٰ تمھاری صورتوں اور تمھارے مالوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمھارے دلوں اور تمھارے عملوں کو دیکھتا ہے۔‘‘ عیاض بن حمار مجاشعی رضی اللہ عنہ نے ایک لمبی حدیث میں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَ إِنَّ اللّٰهَ أَوْحٰی إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوْا حَتّٰی لَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلٰی أَحَدٍ وَلَا يَبْغِيْ أَحَدٌ عَلٰی أَحَدٍ )) [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب الصفات التي یعرف بہا....: ۶۴؍۲۸۶۵ ] ’’اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ آپس میں تواضع اختیار کرو، حتیٰ کہ نہ کوئی کسی پر فخر کرے اور نہ کوئی کسی پر زیادتی کرے۔‘‘ 5۔ اہل علم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نکاح میں کفو (جوڑ) ہونے کے لیے اسلام کے علاوہ کوئی شرط معتبر نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ اس لیے یہ جو مشہور ہے کہ سید لڑکی کا نکاح غیر سید سے نہیں ہو سکتا، درست نہیں۔ ویسے فاطمہ رضی اللہ عنھا کی اولاد کو لفظ ’’سید‘‘ کے ساتھ خاص کرنا بھی محض رواج ہے۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ہونے کے باوجود ابولہب جہنمی ہے اور غلام ہونے کے باوجود بلال رضی اللہ عنہ کے جوتوں کی آواز جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے (بطور خادم) سنائی دے رہی ہے اور جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: (( أَبُوْ بَكْرٍ سَيِّدُنَا، وَأَعْتَقَ سَيِّدَنَا يَعْنِيْ بِلاَلاً )) [ بخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب مناقب بلال بن رباح ....: ۳۷۵۴ ] ’’ابو بکر ہمارا سید ہے اور اس نے ہمارے سید بلال کو آزاد کیا۔‘‘ 6۔ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ: یعنی اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کس کے دل میں تقویٰ زیادہ ہے، جس کی وجہ سے اسے سب سے زیادہ معزز ہونے کا شرف حاصل ہے۔ تو جب کسی کو دلوں کا حال معلوم ہی نہیں تو کوئی کسی پر فخر کیسے کر سکتا ہے اور کسی کو حقیر کیوں جانتا ہے!؟