وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو (١) پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے (٢) اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو (٣) اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (٤)
1۔ وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا: فاسق لوگوں کی خبر پر بلاتحقیق اعتماد کر لینے سے کئی دفعہ آپس میں لڑائی ہو جاتی ہے اور کئی دفعہ ہر قسم کی پیش بندی کے باوجود لڑائی ہو جاتی ہے۔ اس آیت میں یہ بتایا کہ مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے موقع پر ان لوگوں پر لازم ہے جو اس لڑائی میں شریک نہیں کہ لڑنے والوں کے درمیان صلح کروا دیں۔ ان کے لیے جائز نہیں کہ مسلمانوں کو لڑتے ہوئے ان کے حال پر چھوڑ دیں اور تماشا دیکھتے رہیں۔ 2۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : (( أَنَّ أَهْلَ قُبَاءٍ اقْتَتَلُوْا حَتّٰی تَرَامَوْا بِالْحِجَارَةِ فَأُخْبِرَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذٰلِكَ فَقَالَ اذْهَبُوْا بِنَا نُصْلِحْ بَيْنَهُمْ )) [بخاري، الصلح، باب قول الإمام لأصحابہ اذھبوا....: ۲۶۹۳ ] ’’قبا میں رہنے والے لڑ پڑے، حتیٰ کہ انھوں نے ایک دوسرے پر پتھر پھینکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہمارے ساتھ چلو، تاکہ ہم ان کے درمیان صلح کروائیں۔‘‘ اور انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ اگر آپ عبد اللہ بن اُبی کے پاس جائیں تو بہتر ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سوار ہو کر گئے، مسلمان بھی آپ کے ساتھ پیدل چلنے لگے۔ وہ زمین شور والی تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے تو وہ کہنے لگا: ’’مجھ سے دور رہو، اللہ کی قسم! تمھارے گدھے کی بدبو سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔‘‘ ایک انصاری صحابی نے کہا : ’’اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گدھے کی خوشبو تجھ سے اچھی ہے۔‘‘ عبد اللہ بن اُبی کی طرف سے اس کی قوم کا ایک آدمی غصے میں آ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا، پھر دونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہو گئے اور چھڑی، ہاتھا پائی اور جوتوں کے ساتھ ایک دوسرے کو مارنے لگے۔ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی: ﴿ وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ﴾ [ بخاري، الصلح، باب ما جاء في الإصلاح بین الناس : ۲۶۹۱ ] 3۔ قرطبی نے فرمایا: ’’طائفہ کا لفظ ایک آدمی پر، دو پر اور زیادہ پر بھی بولا جاتا ہے۔ ’’ طَآىِٕفَتٰنِ ‘‘ میں لڑنے والے دو آدمی بھی شامل ہیں اور دو جماعتیں بھی، چھوٹی ہوں یا بڑی۔ آیت میں لڑنے والے فریقوں کے درمیان صلح کروانے کا حکم ہے، خواہ دو مسلمان آپس میں لڑ رہے ہوں یا زیادہ۔‘‘ 4۔ بعض احادیث میں کسی مسلمان سے لڑنے کو کفر اور لڑنے والوں کو کافر کہا گیا ہے، جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَ قِتَالُهُ كُفْرٌ )) [ بخاري، الإیمان، باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ ....: ۴۸ ] ’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : (( لاَ تَرْجِعُوْا بَعْدِيْ كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ )) [ بخاري، الفتن، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’ لا ترجعوا بعدي کفارا....‘‘: ۷۰۷۷ ] ’’میرے بعد پھر کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘ امام بخاری اور دوسرے ائمہ کرام نے فرمایا کہ آیت : ﴿وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ دلیل ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے لڑنے کے باوجود مسلمان ہی رہتے ہیں، اسلام سے خارج یا مرتد نہیں ہو جاتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لڑنے والے دونوں فریقوں کو مومن قرار دیا ہے اور اس سے اگلی آیت میں بھی فرمایا : ﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ﴾ [ الحجرات : ۱۰ ] ’’مومن تو (آپس میں) بھائی ہی ہیں، سو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو۔‘‘ اسی طرح آیت قصاص میں قاتل کو مقتول کے وارث کا بھائی قرار دیا، فرمایا : ﴿فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ ﴾ [ البقرۃ : ۱۷۸] ’’پھر جسے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ بھی معاف کر دیا جائے تو معروف طریقے سے پیچھا کرنا اور اچھے طریقے سے اس کے پاس پہنچا دینا (لازم) ہے۔‘‘ رہا حدیث میں مسلمان سے لڑائی کو کفر قرار دینا تو اس سے وہ کفر مراد نہیں جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، بلکہ اس سے مراد ’’کفر دون کفر‘‘ یعنی کفر اکبر (جس سے انسان اسلام سے خارج ہوتا ہے) سے کم تر درجے کا کفر ہے، کیونکہ گناہ کے تمام کام کفر اور جاہلیت ہیں اور ایسے شخص کو کافر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کفر کے کام کا ارتکاب کیا ہے، اس کا ایمان کامل نہیں بلکہ وہ ناقص الایمان مومن ہے، یہ نہیں کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہو گیا۔ دلیل اس کی زیر تفسیر آیت اور دوسری بہت سی آیات و احادیث ہیں جو امام بخاری نے اپنی صحیح کی ’’کتاب الایمان‘‘ میں اور دوسرے ائمہ نے اپنی تصانیف میں بیان فرمائی ہیں۔ اس آیت سے خوارج کے عقیدے کی نفی ہوتی ہے جو کسی بھی کبیرہ گناہ کے مرتکب کو، جس نے توبہ نہ کی ہو، کافر اور ابدی جہنمی سمجھتے ہیں اور معتزلہ کے عقیدے کی بھی جو کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ مومن ہے نہ کافر۔ انجام کے لحاظ سے وہ بھی اسے ابدی جہنمی قرار دیتے ہیں۔ 5۔ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى: ’’ بَغَتْ ‘‘ ’’ بَغٰي يَبْغِيْ بَغْيًا ‘‘ (ض) سے واحد مؤنث غائب ماضی معلوم ہے۔ اگر ان دو فریقوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے، یعنی وہ کتاب و سنت کے فیصلے کے مطابق صلح پر اور اختلاف دور کرنے پر آمادہ ہی نہ ہو، بلکہ دوسرے پر چڑھتا چلا جائے اور ظلم و زیادتی پر کمر باندھ لے۔ 6۔ فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ: تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، کیونکہ اس لڑائی کا حکم اللہ نے دیا ہے، اس لیے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے۔ اس حکم کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو طاقت استعمال کرکے زیادتی کا ازالہ کرنے پر قادر ہوں۔ 7۔ حَتّٰى تَفِيْٓءَ اِلٰى اَمْرِ اللّٰهِ: ”تَفِيْءَ “ ’’فَائَ يَفِيْئُ فَيْئًا ‘‘ (ض) لوٹنا، پلٹنا۔ یہ واحد مؤنث غائب مضارع معلوم ہے۔ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آنے کا مطلب یہ ہے کہ جو بات کتاب و سنت کی رو سے حق ہے باغی گروہ اسے قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باغی گروہ سے لڑتے وقت یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ لڑنے سے مقصود انھیں صلح پر مجبور کرنا ہے، انھیں ختم کرنا یا ان کا نام و نشان مٹانا مقصود نہیں۔ 8۔ یہ آیت مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی فیصلوں کی بنیاد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کی آپس میں کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی، چند موقعوں پر جھگڑا ہوا مگر نوبت ہاتھا پائی اور چھڑی جوتے سے آگے نہیں بڑھی۔ ان آیات کی عملی تفسیر اس وقت سامنے آئی جب علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مسلمانوں کی آپس میں لڑائیاں ہوئیں۔ اس وقت چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام کثیر تعداد میں موجود تھے، جو قرآن و سنت کا علم بعدمیں آنے والے کسی بھی شخص سے زیادہ رکھتے تھے، اس لیے ان کے عمل اور ان کے بیان کردہ احکام سے قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے ایک اسوہ اور ضابطہ مرتب ہو گیا۔ اس طرح یہ جنگیں ناگوار اور نہایت تکلیف دہ ہونے کے باوجود خیر سے خالی نہیں رہیں، کیونکہ اگر یہ نہ ہوتیں تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ بعد میں آنے والے مسلمان آپس کی لڑائیوں میں ایک دوسرے پر کیا کیا ظلم و ستم کرتے۔ اس ضابطے کا ضروری خلاصہ یہ ہے : (1) جب لڑنے والے دو گروہ کسی مسلم حکومت کی رعایا ہوں اور عام مسلمان انھیں صلح پر آمادہ نہ کر سکیں تو ان کے درمیان صلح کرانا یا یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں زیادتی کرنے والا گروہ کون ہے، پھر طاقت کے ذریعے سے اس کو حق پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔ (2) لڑنے والے دونوں فریق بہت بڑے طاقتور گروہ ہوں، یا دو مسلمان حکومتیں ہوں اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہو تو اس صورت میں اہلِ ایمان کا کام یہ ہے کہ اس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور دونوں فریقوں کو اللہ کا خوف دلا کر جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ (3) مسلم حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے رعایا کا کوئی گروہ اگر اس کے خلاف خروج کرے تو اس کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ مسلمانوں کا متفقہ حکمران موجود ہو اور اس کے خلاف خروج کرنے والوں کے پاس خروج کے لیے شرعی دلیل اور حکمرا ن کا کفر بواح یعنی کھلم کھلا کافر ہو جانا موجود نہ ہو، ایسے گروہ کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اس کا ساتھ دینا ایمان والوں پر واجب ہے۔ قطع نظر اس سے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو، کیونکہ عادل نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کوئی بھی گروہ کسی بھی وقت حکومت کے خلاف خروج کر سکتا ہے، جس کا نتیجہ افتراق و انتشار اور کفار کو مسلمانوں پر حملے کی جرأت دلانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ دوسری قسم ظالم حکمران کے خلاف خروج ہے، جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں اور خروج کرنے والا گروہ عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لیے اٹھا ہو اور اس کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کو وہ نیک لوگ ہیں۔ اہلِ سنت کا موقف یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہو چکی ہو اور مملکت کا امن و امان اور نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو اس کے خلاف خروج کرنا حرام ہے، الا یہ کہ وہ کفرِ بواح کا ارتکاب کرے، یعنی کھلم کھلا کافر ہو جائے۔ امام نووی نے اس پر اجماع کا ذکر فرمایا ہے۔ بعض لوگ ایسے حکمران کے خلاف خروج کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اہلِ بیت کے بعض خروج کرنے والے حضرات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور بعض فقہاء کا نام بھی لیا جاتا ہے جنھوں نے مسلم حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کو جائز قرار دیا، مگر محدثین اور جمہور فقہاء ان کے اس موقف کو غلط قرار دیتے ہیں، بلکہ اسے یہ موقف رکھنے والوں کے لیے باعثِ طعن قرار دیتے ہیں کہ ’’فُلَانٌ كَانَ يَرَي السَّيْفَ‘‘ کہ فلاں صاحب مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کو جائز قرار دیتے تھے۔ امام احمد ابن حنبل اور دوسرے محدثین نے حکمرانوں کے بے حد ظلم و ستم کے باوجود ان کے خلاف نہ خروج کیا نہ خروج کو جائز رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ پوری تاریخ اسلام پڑھ جائیں کسی خروج کے نتیجے میں مسلمانوں کو تَشتُّت و انتشار اور کفار سے جہاد کے رک جانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا، خواہ حکمران عادل تھا یا ظالم۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمرانوں کے سامنے حق کہنے اور ان کو نصیحت کرنے کی تلقین فرمائی، مگر ان کے خلاف خروج سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا۔ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں، ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ رَأٰی مِنْ أَمِيْرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ، فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُفَارِقُ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَيَمُوْتُ إِلاَّ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً )) [بخاري، الأحکام، باب السمع والطاعۃ للإمام ما لکم تکن معصیۃ : ۷۱۴۳ ] ’’جو شخص اپنے امیر میں کوئی چیز دیکھے جو اسے بری لگے تو وہ صبر کرے، کیونکہ جو بھی شخص جماعت سے ایک بالشت جدا ہوا پھر فوت ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( دَعَانَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعْنَاهُ فَقَالَ فِيْمَا أَخَذَ عَلَيْنَا أَنْ بَايَعَنَا عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِيْ مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا وَأَثَرَةً عَلَيْنَا، وَ أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلاَّ أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللّٰهِ فِيْهِ بُرْهَانٌ )) [بخاري، الفتن، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’ سترون بعدي أمور تنکرونھا ‘‘ : ۷۰۵۵،۷۰۵۶ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دعوت دی تو ہم نے آپ سے بیعت کی۔ آپ نے ہم سے جو عہد لیا اس میں یہ تھا کہ ہم نے بیعت کی سننے اور اطاعت کرنے پر، اپنی خوشی اور ناخوشی میں اور اپنی تنگی اور آسانی میں اور اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیے جانے پر بھی اور اس بات پر کہ ہم صاحب امر (حکمران) سے امارت میں جھگڑا نہیں کریں گے، الا یہ کہ تم صریح کفر دیکھو، جس کے متعلق تمھارے پاس اللہ کے ہاں واضح دلیل ہو۔‘‘ (4) علی رضی اللہ عنہ کا عمل اپنے خلاف جنگ کرنے والوں کو باغی سمجھنے اور ان سے لڑنے کے باوجود یہ تھا کہ وہ مسلمان ہیں، ان کے زخمیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا، ان کے بھاگنے والوں کا پیچھا نہیں کیا جائے گا، ان کے اسیروں کو قتل نہیں کیا جائے گا، ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی و غلام نہیں بنایا جائے گا، بلکہ ان کی آبرو کی حفاظت کی جائے گی اور ان کا مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ جنگِ جمل اور جنگِ صفین میں دونوں فریق ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے اور ایک دوسرے کا جنازہ پڑھتے تھے۔ احکام کی تفصیل اور دلائل کے لیے دیکھیے ’’المغنی‘‘ از ابن قدامہ میں ’’كِتَابُ قِتَالِ أَهْلِ الْبَغْيِ‘‘ اور دوسری کتب فقہ۔ 9۔ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ: زیادتی کرنے والے گروہ کے اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آنے پر دونوں گروہوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کروانے کا حکم دیا، یہ نہیں کہ کسی فریق کی بے جا رعایت کرکے اور دوسرے کو دبا کر صرف لڑائی روکنے کے لیے صلح کروائی جائے، کیونکہ ایسی صلح نہ پائیدار ہوتی ہے، نہ اس سے آئندہ کے لیے لڑائی کا دروازہ بند ہوتا ہے۔ اس لیے ایک فریق پر دوسرے کا جو حق ثابت ہوتا ہے وہ اسے دلا کر عدل کے ساتھ صلح کروانی چاہیے۔ 10۔ وَ اَقْسِطُوْا: یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے پہلے فرمایا، دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کروا دو، پھر دوبارہ ’’ اَقْسِطُوْا ‘‘ کہنے میں کیا حکمت ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ لڑائی کے موقع پر بعض لڑنے والوں کے خلاف دل میں شدید نفرت پیدا ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے انسان درست فیصلہ نہیں کر سکتا، اس لیے تاکید کے لیے دوبارہ انصاف کا حکم دیا اور انصاف کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی محبت کی نوید سنائی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ پہلے جملے میں لڑنے والوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کروانے کا حکم ہے اور ’’ اَقْسِطُوْا ‘‘ میں اپنے تمام معاملات میں انصاف سے کام لینے کا حکم ہے۔ انصاف کیا ہے؟ اس کے لیے دیکھیے سورۂ نحل (۹۰) کی تفسیر۔ 11۔ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللّٰهُ تَعَالٰی فِيْ ظِلِّهِ يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ، إِمَامٌ عَدْلٌ....)) [ بخاري، الزکوٰۃ، باب الصدقۃ بالیمین : ۱۴۲۳ ] ’’سات آدمی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ (سب سے پہلے جس کا ذکر فرمایا وہ ہے) عادل حکمران....۔‘‘ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ الْمُقْسِطِيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ عَلٰی مَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ عَنْ يَمِيْنِ الرَّحْمٰنِ عَزَّ وَجَلَّ وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِيْنٌ الَّذِيْنَ يَعْدِلُوْنَ فِيْ حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيْهِمْ وَمَا وَلُوْا )) [ مسلم، الإمارۃ، باب فضیلۃ الإمام العادل....: ۱۸۲۷ ] ’’انصاف کرنے والے اللہ کے پاس نور کے منبروں پر رحمان عز و جل کی دائیں جانب ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے گھر والوں میں اور جس کے ذمہ دار ہیں سب میں انصاف کرتے ہیں۔‘‘