يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو (١) ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْا: ’’ فَاسِقٌ‘‘ جو دین کی کسی حد سے یا تمام حدوں سے نکل جائے، جن کی پابندی لازم ہے۔ اس کا اشتقاق ’’فَسَقَ الرُّطَبُ‘‘ (تازہ کھجور چھلکے سے باہر نکل گئی، یعنی پھٹ گئی) سے ہے۔ اس کا اکثر استعمال نافرمانی کے مرتکب مسلمان پر ہوتا ہے، کافر پر بھی یہ لفظ بول لیا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوٗنَ ﴾ [السجدۃ: ۱۸] ’’تو کیا وہ شخص جو مومن ہو وہ اس کی طرح ہے جو نافرمان ہو؟ برابر نہیں ہوتے۔‘‘ ’’نَبَأٌ‘‘ کوئی اہم خبر۔ راغب نے فرمایا: ’’خبر کو ’’نبا‘‘ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے کوئی عظیم فائدہ حاصل ہوتا ہو، ایسی ہی خبر سے کسی بات کا یقین یا غلبۂ ظن حاصل ہوتا ہے۔‘‘ ’’ فَتَبَيَّنُوْا ‘‘ ’’تَبَيَّنَ يَتَبَيَّنُ ‘‘ (تفعّل) لازم بھی آتا ہے، یعنی کسی چیز کا خوب واضح ہو جانا اور متعدی بھی، یعنی کسی چیز پر پوری طرح غور و فکر اور اس کی تحقیق کرنا، اس کی حقیقت معلوم کر لینا، یہاں متعدی کے معنی میں ہے۔ اکثر قراء توں میں ’’ فَتَبَيَّنُوْا ‘‘ ہے، حمزہ اور کسائی کی قراء ت میں ’’فَتَثَبَّتُوْا‘‘ ہے، معنی دونوں کا ایک ہی ہے۔ 2۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسے ادب کی تعلیم دی ہے جس کا اہتمام ان کے دین و دنیا کے معاملات میں نہایت ضروری ہے اور جس کی پابندی نہ کرنے سے بے پناہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ وہ یہ کہ جب ان کے پاس کوئی فاسق، جو کھلم کھلا دین کی حد پامال کرنے والا ہے، کوئی اہم خبر لے کر آئے تو اسے سنتے ہی سچا نہ سمجھ لیں اور نہ ہی پوری تحقیق کے بغیر اس کی بات کا اعتبار کریں، کیونکہ جو فسق سے پرہیز نہیں کرتا وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے۔ 3۔ اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ: اس سے معلوم ہوا کہ فاسق کی خبر پر بلاتحقیق عمل کرنا جہالت ہے، جو خطا سے بڑھ کر ہے، کیونکہ مجتہد اگر غلطی کرے تو اسے مخطی کہہ سکتے ہیں، جاہل نہیں، جب کہ بلاتحقیق فاسق کے قول پر فیصلہ کرنے والا اگر غلط فیصلہ کرے تو وہ جاہل ہے۔ (رازی) یعنی ایسا نہ ہو کہ تم کسی فاسق کی خبر پر بلاتحقیق کوئی کارروائی کر گزرو اور لاعلمی میں کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا دو، ان پر حملہ کر کے انھیں زخمی یا قتل کر دو، ان کی غیبت کر بیٹھو یا ان سے قطع تعلق کر لو، غرض تمھاری طرف سے انھیں کوئی بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کتنے ہی فتنے اور فساد ہیں جو بلاتحقیق ایسی خبروں پر عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور بات بگڑ کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ 4۔ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ: پھر تم اس پر پشیمان ہو جاؤ، کیونکہ جلد بازی اور بلاتحقیق کام کا نتیجہ پشیمانی ہی ہے۔ 5۔ یہ آیت اس عظیم الشان علم کی بنیاد ہے جسے اصولِ حدیث کہا جاتا ہے، جو ہماری امت کی خصوصیت ہے اور جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقوال اور احوال و تقریرات محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچے ہیں اور قیامت تک پہنچتے جائیں گے۔ اس علم کی تکمیل کے لیے امت مسلمہ نے ایک لاکھ سے زیادہ راویوں کے حالاتِ زندگی، ان کا صدق و کذب، عدالت و فسق، حافظ ہونا یا نہ ہونا وغیرہ سب کچھ محفوظ کر دیا ہے۔ اس میں سب سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی خبر بیان کرنے والا فاسق ہے یا عادل، اگر فاسق ہے تو اس کی خبر کی تحقیق کی جائے گی، اگر کسی دوسرے ذریعے سے اس کا درست ہونا ثابت ہو جائے تو اسے مان لیا جائے گا ورنہ اسے قبول نہیں کیا جائے گا اور اگر خبر دینے والا عادل ہے تو مزید تحقیق کی ضرورت نہیں اور اس کی خبر قبول کی جائے گی، خواہ خبر دینے والا ایک ہی ہو۔ اصطلاح میں کہا جاتا ہے کہ خبر واحد حجت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجہول آدمی کی خبر بھی بلاتحقیق قبول نہیں کی جائے گی، کیونکہ اس کے فاسق ہونے کا احتمال ہے۔ 6۔ آیت کے الفاظ میں ’’ فَاسِقٌ‘‘ اور ’’ بِنَبَاٍ ‘‘ دونوں نکرہ ہیں، اس میں کسی خاص شخص کو متعین نہیں کیا گیا، بلکہ ایک عام قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی فاسق شخص کوئی بھی خبر لے کر تمھارے پاس آئے تو اس کی تحقیق کر لو۔ بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی، جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو مصطلق سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ماں کی طرف سے بھائی تھے۔ بنو مصطلق اور ان کے قبیلہ میں اسلام سے پہلے سے دشمنی چلی آ رہی تھی، وہ لوگ مسلح ہو کر استقبال کے لیے آئے، تو یہ ڈر گئے کہ شاید یہ لوگ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں اور وہیں سے واپس آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ بنو مصطلق نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے، بلکہ وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر بنو مصطلق کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا، ابھی یہ لشکر راستے میں تھا کہ ادھر سے بنو مصطلق کے سردار حارث بن ضرار رضی اللہ عنہ (ام المومنین جویریہ رضی اللہ عنھا کے والد) اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آتے نظر آئے۔ قریب پہنچ کر انھوں نے لشکر والوں سے دریافت کیا کہ آپ لوگ کدھر جا رہے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ تمھاری طرف ہی جا رہے ہیں۔ انھوں نے سبب پوچھا تو لشکر والوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو تمھارے پاس بھیجا اور تم نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا، بلکہ اسے قتل کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ انھوں نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث کیا ہے! ولید نہ ہمارے پاس آیا اور نہ ہم نے اس کی شکل دیکھی۔ پھر یہی بات انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہی اور مزید کہا کہ ہم تو خود آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ کی طرف سے کوئی زکوٰۃ وصول کرنے نہیں پہنچا اور ہم ڈر گئے کہ کہیں آپ ہم سے ناراض نہ ہو گئے ہوں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ ان روایات کا خلاصہ ہے جو ابنِ کثیر وغیرہ نے نقل فرمائی ہیں۔ 7۔ عام مفسرین نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو فاسق اور ان کی خبر کو تحقیق کے بغیر ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ بعض کج دماغوں نے اسے اس مسلم قاعدے پر طعن کا ذریعہ بنایا ہے کہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب کے سب عادل ہیں اور کسی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ثابت نہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی کوئی بھی ہو اس کی بیان کردہ ہر روایت معتبر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت کو ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے متعلق قرار دینے والی کسی بھی روایت کی سند صحیح نہیں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس مقام پر چار روایتیں نقل کی ہیں اور ان میں سب سے بہتر حارث بن ضرار خزاعی رضی اللہ عنہ کی روایت کو قرار دیا ہے۔ اس کی سند یہ ہے : ’’ قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ فِيْ مُسْنَدِهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ حَدَّثَنَا عِيْسَي بْنُ دِيْنَارٍ حَدَّثَنَا أَبِيْ أَنَّهُ سَمِعَ الْحَارِثَ بْنَ ضِرَارٍ الْخُزَاعِيَّ قَالَ ‘‘ [ مسند أحمد :4؍279، ح : ۱۸۴۵۹ ] تفسیر ابن کثیر کے محقق سامی بن محمد سلامہ لکھتے ہیں : ’’بہت سے مفسرین اس قول کی طرف گئے ہیں (کہ یہ آیت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے) حالانکہ اس قول میں نظر ہے، کیونکہ جتنی بھی روایات میں یہ قصہ بیان ہوا ہے وہ سب معلول ہیں (ان میں خرابی ہے)، ان میں سب سے بہتر امام احمد کی حارث بن ضرار خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے اور قاضی ابوبکر بن العربی نے اپنی کتاب ’’العواصم من القواصم (ص : ۱۰۲)‘‘ میں اس قصے کا انکار کیا ہے۔‘‘ تفسیر ابن کثیرکی تخریج ’’هداية المستنير‘‘ (تالیف ابو عبد الرحمن عادل بن یوسف العزازی) میں ہے : ’’اس روایت میں دینار کوفی ہے، حافظ نے فرمایا، مقبول ہے، یعنی جب اس کی کوئی متابعت موجود ہو۔‘‘ ظاہر ہے یہاں کسی نے اس کی متابعت نہیں کی، اس لیے اس کی یہ روایت قبول نہیں۔ مسند احمد کے محققین نے اس روایت پر لکھا ہے: ’’حارث بن ضرار کے اسلام کا قصہ چھوڑ کر باقی روایت اپنے شواہد کی وجہ سے حسن ہے اور یہ سند ضعیف ہے، کیونکہ عیسیٰ کا والد دینار مجہول ہے۔ وہ کوفے کا رہنے والا ہے اور عمرو بن حارث کا مولیٰ ہے، اس سے اس کے بیٹے عیسیٰ نے اکیلے ہی یہ روایت بیان کی ہے اور ابن المدینی نے فرمایا : ’’لَا أَعْرِفُهُ‘‘ (میں اسے نہیں پہچانتا) اس کے باوجود ابن حبان نے اس کا ذکر ’’الثقات‘‘ میں کیا ہے۔‘‘ اس آیت کے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے متعلق نازل ہونے کی دوسری روایت ابن کثیر نے ام سلمہ رضی اللہ عنھا کی بیان کی ہے۔ ابن کثیر (طبع دار ابن الجوزی) کے محقق دکتور حکمت بن بشیر نے فرمایا: ’’اس کی سند موسیٰ بن عبیدہ کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔‘‘ ابن کثیر میں اس مفہوم کی تیسری روایت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، جو عوفی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ چوتھی روایت مجاہد اور قتادہ نے بیان کی ہے جو تابعی ہیں اور ان کی روایت مرسل ہے جو حجت نہیں۔ آپ غور فرمائیں ! یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی سب سے بہتر روایت کو حسن کہنے والے بھی اس کی سند کے ضعیف ہونے کا اعتراف کرتے ہیں، حسن صرف شواہد کی وجہ سے کہتے ہیں اور شواہد بھی ایسے کہ سب کی سند ضعیف ہے۔ ایسی کمزور روایت کے ساتھ ایک صحابی کو فاسق قرار دینا کیسے درست ہو سکتا ہے، جو اس جماعت کا فرد ہے جسے اللہ تعالیٰ کی رضا کی سند حاصل ہو چکی ہے۔ 8۔ اگر اس قصے کو درست مان لیا جائے تو بھی اس سے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کا فاسق ہونا لازم نہیں آتا۔ سب سے پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقات کی وصولی کے لیے ان کا انتخاب ان کے فاسق ہونے کی نفی کرتا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے عمال کو صدقات وغیرہ کی وصولی پر مقرر فرماتے تھے جو نہایت امین ہوتے تھے، جیسا کہ ابوعبیدہ امین ہذہ الامہ کو یمن کی طرف بھیجنے سے ظاہر ہے۔ پھر ولید رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ بنو مصطلق نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے اور میرے قتل کا ارادہ کیا ہے، اس کی وجہ خود اس روایت میں موجود ہے کہ ان کے درمیان سابقہ دشمنی موجود تھی اور مسلح افراد کی بہت بڑی تعداد کو دیکھ کر ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ یہ مجھے قتل کرنے آئے ہیں اور زکوٰۃ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسا گمان پیدا ہونا فطری بات ہے۔ آپ اسے گمان کی غلطی کہہ سکتے ہیں مگر جھوٹ یا فسق نہیں کہہ سکتے۔ رہا آیت کا نزول تو ا س میں نہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ولید فاسق ہے نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ آیت میں مسلمانوں کو ایک حکم دیا گیا ہے کہ ان کے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کریں، اندھا دھند اس پر کارروائی نہ کریں۔ 9۔ شیخ عبد الرحمان معلمی یمانی نے ’’الانوار الکاشفہ (ص : ۲۶۳)‘‘ میں ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث منقول ہی نہیں، اس لیے اس واقعہ سے کسی صحابی کی نقل کردہ روایت کا مردود ہونا لازم ہی نہیں آتا، کیونکہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت نقل ہی نہیں کی۔ شیخ معلمی نے ان سے مروی دوسری روایات کے علاوہ اس روایت کی بھی نفی کی ہے جو مسند احمد میں ہے کہ ولید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( لَمَّا فَتَحَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ جَعَلَ أَهْلُ مَكَّةَ يَأْتُوْنَهُ بِصِبْيَانِهِمْ فَيَمْسَحُ عَلٰی رُؤُوْسِهِمْ وَيَدْعُوْ لَهُمْ، فَجِيْئَ بِيْ إِلَيْهِ وَ إِنِّيْ مُطَيَّبٌ بِالْخَلُوْقِ، فَلَمْ يَمْسَحْ عَلٰی رَأْسِيْ، وَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ ذٰلِكَ إِلاَّ أَنَّ أُمِّيْ خَلَّقَتْنِيْ بِالْخَلُوْقِ فَلَمْ يَمَسَّنِيْ مِنْ أَجْلِ الْخَلُوْقِ )) [مسند أحمد :4؍32، ح : ۱۶۳۷۹ ] ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو اہلِ مکہ اپنے بچے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے لگے، آپ ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے اور ان کے لیے برکت کی دعا کرتے۔ مجھے بھی آپ کے پاس لایا گیا مگر آپ نے میرے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا اور آپ کے ہاتھ نہ پھیرنے کی وجہ یہی بنی کہ میری ماں نے مجھے خلوق (زعفران سے مرکب ایک خوشبو) لگائی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلوق کی وجہ سے مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘ مسند احمد کے محققین نے لکھا ہے: ’’اس کی سند عبد اللہ ہمدانی کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، کنیت اس کی ابوموسیٰ ہے۔ اس سے روایت میں ثابت بن حجاج الکلابی منفرد ہے اور ذہبی اور ابنِ حجر نے تقریب میں اسے مجہول کہا ہے۔ بخاری نے ’’تاریخ کبیر‘‘ (۵؍۲۲۴) میں کہا ہے: ’’لَا يَصِحُّ حَدِيْثُهُ‘‘ (اس کی حدیث صحیح نہیں) اور ابن عبد البر نے کہا ہے کہ یہ ابوموسیٰ مجہول ہے اور یہ خبر منکر ہے، صحیح نہیں۔‘‘ اگر اس روایت کو صحیح مانا جائے تو ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو فاسق کہنے کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے، کیونکہ اس سے فتح مکہ کے موقع پر ولید کا بچہ ہونا ثابت ہوتا ہے، جسے صدقات کا عامل بنا کر بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 10۔ بعض لوگوں نے صحیح مسلم (۱۷۰۷) وغیرہ کی اس روایت کی وجہ سے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو فاسق قرار دیا ہے جس میں ہے کہ انھوں نے شراب پی کر صبح کی جماعت دو رکعتیں پڑھانے کے بعد کہا کہ مزید پڑھاؤں، جس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے ان پر شراب کی حد لگائی۔ واضح رہے کہ بعض روایات میں دو کے بجائے چار رکعتیں پڑھانے کا ذکر ہے مگر ان میں سے کوئی روایت بھی صحیح نہیں۔ بعض اہلِ علم نے لکھا ہے : ’’علامہ آلوسی نے روح المعانی میں فرمایا : ’’اس معاملے میں حق بات وہ ہے جس کی طرف جمہور علماء گئے ہیں کہ صحابہ کرام معصوم نہیں ہیں، ان سے گناہ کبیرہ بھی سرزد ہو سکتا ہے جو فسق ہے اور اس گناہ کے وقت ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جس کے وہ مستحق ہیں، یعنی شرعی سزا جاری کی جائے گی، لیکن اہلِ سنت والجماعہ کا عقیدہ قرآن و سنت کی نصوص کی بنا پر یہ ہے کہ صحابی سے گناہ تو ہو سکتا ہے مگر کوئی صحابی ایسا نہیں جو گناہ سے توبہ کرکے پاک نہ ہو گیا ہو۔ قرآن کریم نے علی الاطلاق ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا فیصلہ فرما دیا ہے، فرمایا: ﴿رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا اَبَدًا ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ﴾ [التوبۃ : ۱۰۰ ] ’’اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے تلے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کی رضا گناہ کے معاف ہونے کے بغیر نہیں ہوتی، جیسا کہ قاضی ابو یعلی نے فرمایا: ’’رضا اللہ تعالیٰ کی ایک صفت قدیمہ ہے، وہ اپنی رضا کا اعلان صرف انھی کے لیے فرماتے ہیں جن کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ ان کی وفات ان کاموں پر ہو گی جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے۔‘‘ [ کَذَا فِي الصَّارِمِ الْمَسْلُوْلِ لاِبْنِ تَیْمِیَۃَ ] خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی عظیم الشان جماعت میں سے اگر کسی سے کبھی کوئی گناہ سرزد ہوا بھی ہے تو ان کو فوراً توبہ کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔ حق تعالیٰ نے ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے ایسا بنا دیا تھا کہ شریعت ان کی طبیعت بن گئی تھی، خلافِ شرع کوئی کام یا گناہ سرزد ہونا انتہائی شاذ و نادر تھا۔ ان کے اعمال صالحہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر اپنی جانیں قربان کرنا اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کو وظیفۂ زندگی بنانا اور اس کے لیے ایسے مجاہدات کرنا جن کی نظیر پچھلی امتوں میں نہیں ملتی، ان بے شمار اعمال صالحہ اور فضائل و کمالات کے مقابلے میں عمر بھر میں کسی گناہ کا سرزد ہو جانا اس کو خود ہی کالعدم کر دیتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عظمت اور ادنیٰ سے گناہ کے وقت ان کا خوف، خشیت اور فوراً توبہ کرنا بلکہ اپنے آپ کو سزا کے لیے خود پیش کر دینا روایاتِ حدیث میں مشہور و معروف ہے اور بحکمِ حدیث گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے جیسے گناہ کیا ہی نہیں۔ تیسرے قرآن کے ارشاد کے مطابق اعمال صالحہ اور حسنات خود بھی گناہوں کا کفارہ ہو جاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ﴾ [ہود: ۱۱۴] ’’بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔‘‘ خصوصاً جب ان کی حسنات عام لوگوں کی طرح نہیں، بلکہ ان کا حال وہ ہے جو ابوداؤد اور ترمذی نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے (جو عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں) نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : (( لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِّنْهُمْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْبَرُّ فِيْهِ وَجْهُهُ خَيْرٌ مِّنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوْحٍ )) [ أبوداؤد، السنۃ، باب في الخلفاء : ۴۶۵۰، قال الألبانی صحیح ] ’’اللہ کی قسم! ان میں سے کسی شخص کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد میں شریک ہونا جس میں ان کے چہرے پر غبار پڑ گیا ہو، تم میں سے کسی شخص کی عمر بھر کی عبادت و اطاعت سے افضل ہے۔ اگرچہ اس کو نوح علیہ السلام کی عمر دے دی گئی ہو۔‘‘ اس لیے ان سے صدورِ گناہ کے وقت اگرچہ سزا وغیرہ میں معاملہ وہی کیا گیا جو اس جرم کے لیے مقرر تھا، مگر اس کے باوجود بعد میں کسی کے لیے جائز نہیں کہ ان میں سے کسی کو فاسق قرار دے۔ اس لیے اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کسی صحابی سے کوئی گناہ موجب فسق سرزد بھی ہو اور اس وقت ان کو فاسق کہا بھی گیا ہو تو اس سے یہ جائز نہیں ہو جاتا کہ اس فسق کو ان کے لیے ہمیشہ کا حکم سمجھ کر معاذ اللہ فاسق کہا جائے۔‘‘ (کذا فی الروح)