وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اگر یہ لوگ یہاں تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لئے بہتر ہوتا (١) اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ (٢)
1۔ وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ ....: یعنی اگر وہ آوازیں دینے کے بجائے صبر کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا انتظار کرتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا، کیونکہ اس صبر و انتظار میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب ملحوظ رکھنے میں انھیں اجر و ثواب ملتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ خوش دلی کے ساتھ ان سے ملتے اور زیادہ بہتر طریقے سے ان کی ضرورتیں پوری فرماتے۔ ظاہر ہے جس شخص پر پوری امت کی ذمہ داری کا بوجھ ہے اور وہ ہر وقت اسی فکر و عمل میں مصروف ہے، اگر اس وقت جب وہ گھر میں ہے یہ خیال کیے بغیر کہ اس وقت وہ آرام کر رہا ہے یا گھر کے کسی کام میں مصروف ہے، آوازیں دینا شروع کر دیا جائے تو اس خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی جو صبر و انتظار کے ساتھ اس سے حاصل ہونا تھی۔ اس سے اساتذہ کرام، اہلِ علم اور مسلمانوں کے امراء و اکابر کے اکرام کی بھی تعلیم ملتی ہے۔ 2۔ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: یعنی حق تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو ان کی اس بے ادبی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہ کوئی سزا ملتی، مگر چونکہ ان سے یہ فعل بے عقلی کی وجہ سے سرزد ہوا تھا، بدنیتی کی وجہ سے نہیں، اس لیے آخر میں اپنے غفور و رحیم ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی مغفرت کا اشارہ فرما دیا۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب زندہ تھے اور دیوار کے باہر سے آپ تک آواز بھی پہنچتی تھی اس وقت آپ کو آواز دینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے بے عقل قرار دیا تو اب جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے اور یہ ممکن ہی نہ رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری بات سنیں یا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ﴾ [المؤمنون: ۱۰۰] ’’اور ان کے پیچھے اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے، ایک پردہ ہے۔ ‘‘ تو جو لوگ اب ہزاروں میل دور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آوازیں دیتے ہیں اور آوازیں بھی اس مقصد کے لیے دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پورا نہیں کر سکتا، تو ان کے ’’ لَا يَعْقِلُوْنَ ‘‘ (بے عقل) ہونے میں کیا شبہ ہے۔