يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (١)
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ: آلوسی نے فرمایا کہ پچھلی آیت میں ایمان والوں کو اپنے قول یا فعل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے سے منع فرمایا، اس آیت میں آپ کے سامنے بولنے کی کیفیت میں بھی آپ سے بڑھنے کو منع فرما دیا۔ چنانچہ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی یا آپ کی مجلس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے بھی اپنی آوازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی نہ کریں۔ صحیح بخاری میں اس آیت کا سبب نزول بیان ہوا ہے، ابن ابی مُلیکہ فرماتے ہیں: (( كَادَ الْخَيِّرَانِ أَنْ يَهْلِكَا، أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، رَفَعَا أَصْوَاتَهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِيْنَ قَدِمَ عَلَيْهِ رَكْبُ بَنِيْ تَمِيْمٍ، فَأَشَارَ أَحَدُهُمَا بِالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ أَخِيْ بَنِيْ مُجَاشِعٍ وَأَشَارَ الْآخَرُ بِرَجُلٍ آخَرَ قَالَ نَافِعٌ لاَ أَحْفَظُ اسْمَهُ، فَقَالَ أَبُوْ بَكْرٍ لِعُمَرَ مَا أَرَدْتَ إِلاَّ خِلاَفِيْ قَالَ مَا أَرَدْتُ خِلاَفَكَ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فِيْ ذٰلِكَ فَأَنْزَلَ اللّٰهُ : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَكُمْ ﴾ اَلْآيَةَ، قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ فَمَا كَانَ عُمَرُ يُسْمِعُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هٰذِهِ الْآيَةِ حَتّٰی يَسْتَفْهِمَهُ )) [ بخاري، کتاب التفسیر، باب : ﴿لا ترفعوا أصواتکم فوق صوت النبي ﴾: ۴۸۴۵ ] ’’دو سب سے بہتر آدمی قریب تھے کہ ہلاک ہو جاتے، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما ، دونوں نے اپنی آوازیں بلند کیں جب بنو تمیم کے شتر سوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ تو ان دونوں (بہترین آدمیوں) میں سے ایک نے بنی مجاشع کے اقرع بن حابس (کو بنو تمیم کا امیر مقرر کرنے) کا اشارہ کیا اور دوسرے نے ایک اور کا اشارہ کیا۔ نافع نے کہا، مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’تم نے صرف میری مخالفت کا ارادہ کیا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’میں نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا۔‘‘ اس میں دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ﴾ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو۔‘‘ ابن زبیر رضی اللہ عنھما نے فرمایا، پھر اس آیت کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی نہیں دیتی تھی جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دوبارہ پوچھتے نہیں تھے۔‘‘ 2۔ کسی مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کا تقاضا ہے کہ اس کے مقابلے میں کسی شخص کا قول ذکر نہ کیا جائے اور نہ اسے ردّ کرنے کے لیے کسی قسم کے عقلی ڈھکوسلے پیش کیے جائیں، کیونکہ یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز کو اونچا کرنا ہے، بلکہ مخالفت کی وجہ سے یہ اس سے بھی سنگین بے ادبی ہے۔ 3۔ بعض لوگوں کا معاملہ بڑا عجیب ہے کہ وہ لوگوں کو باور کرواتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مجلس میں موجود ہیں، پھر اتنی اونچی آواز سے بولتے ہیں کہ سننے والوں کے کانوں کے پردے پھٹنے کے قریب ہوتے ہیں، اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے واحد اجارہ دار بھی بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب کسی مجلس میں موجود ہوتے یا تشریف لاتے ہیں اور نہ ہی آپ کو موجود سمجھتے ہوئے آپ کی محبت یا ادب میں اتنی بلند آواز کے ساتھ بولنے کی کوئی گنجائش ہے۔ 4۔ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ: اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اس ادب کی تعلیم اس لیے دی کہ بعض اکھڑ اعرابی آپ سے اسی طرح اونچی آواز میں بات کرتے اور آپ کو اسی طرح نام لے کر خطاب کرتے جس طرح وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرتے یا مخاطب کرتے تھے۔ چنانچہ فرمایا، اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح اونچی آواز میں بات کرو جس طرح ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو اور نہ ہی اس طرح آپ کو نام لے کر مخاطب کرو جس طرح ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہو، بلکہ ’’ اے محمد ‘‘کہنے کے بجائے ’’اے اللہ کے رسول‘‘ یا ’’اے اللہ کے نبی‘‘ وغیرہ کہا کرو۔ یہ ادب سورۂ نور میں بھی سکھایا گیا ہے، فرمایا : ﴿ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ﴾ [ النور : ۶۳ ] ’’رسول کے بلانے کو اپنے درمیان اس طرح نہ بنالو جیسے تمھارے بعض کا بعض کو بلانا ہے۔‘‘ خود اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن مجید میں کسی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نام کے ساتھ مخاطب نہیں فرمایا، بلکہ مختلف القاب کے ساتھ ہی مخاطب فرمایا ہے، جیسے ’’ يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ ‘‘، ’’ يٰاَيُّهَا النَّبِیُّ ‘‘، ’’ يٰاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ‘‘ اور’’ يٰاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ‘‘ وغیرہ۔ حالانکہ دوسرے انبیاء کو نام لے کر خطاب فرمایا ہے، جیسے’’ يٰاٰدَمُ ‘‘، ’’ يَا نُوْحُ ‘‘، ’’ يٰاِبْرٰهِيْمُ ‘‘، ’’ يَا مُوْسٰي ‘‘، ’’ يٰعِيْسَي ابْنَ مَرْيَمَ ‘‘ اور’’ يٰدَاؤدُ ‘‘ وغیرہ۔ اس کے باوجود اکثر جاہل ’’یا محمد‘‘ کہنے اور لکھنے پر اصرار کرتے ہیں اور دعویٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا رکھتے ہیں۔ اس آیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر و تعظیم کا اندازہ ہوتا ہے۔ 5۔ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ: اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں آپ کی آواز سے آواز اونچی کرنا یا آپ سے ایسے لہجے میں بات کرنا جس سے آپ کی توقیر و تکریم میں فرق آتا ہو اعمال ضائع ہو جانے کا موجب ہے، خواہ یہ کام کوئی مومن ہی کیوں نہ کرے، کیونکہ ساتھ ہی فرمایا : ﴿وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ﴾’’اور تم شعور نہ رکھتے ہو۔‘‘ منافقین تو ایمان سے خالی تھے، اس لیے وہ جان بوجھ کر آپ سے گستاخی کے ساتھ پیش آتے تھے اور انھیں اپنے اعمال کے ضائع ہونے کی کوئی فکر بھی نہیں تھی۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اعمال ایسے منحوس ہیں کہ وہ اعمال صالحہ کو بھی ضائع کرنے کا باعث بن جاتے ہیں، خصوصاً جن میں اللہ تعالیٰ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی پائی جائے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا موجب ہوتے ہیں۔ ابن کثیر نے فرمایا : ’’ ﴿ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ﴾ یعنی ہم نے تمھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آواز بلند کرنے سے اس لیے منع کیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہو جائیں تو آپ کے غصے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی غصے ہو جائے اور اس شخص کے اعمال برباد کر دے جس نے آپ کو غصہ دلایا اور اسے معلوم بھی نہ ہو، جیسا کہ صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللّٰهِ لاَ يُلْقِيْ لَهَا بَالاً يَرْفَعُ اللّٰهُ بِهَا دَرَجَاتٍ وَ إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللّٰهِ لاَ يُلْقِيْ لَهَا بَالاً يَهْوِيْ بِهَا فِيْ جَهَنَّمَ )) [ بخاري، الرقاق، باب حفظ اللسان : ۶۴۷۸ ] ’’بندہ اللہ کو راضی کرنے والی کوئی بات کرتا ہے، جس کا وہ کوئی دھیان نہیں کرتا، تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے کئی درجے بلند کر دیتا ہے اور بندہ اللہ کو غصہ دلانے والی کوئی بات کرتا ہے، جس کا وہ کوئی دھیان نہیں کرتا، تو اس کی وجہ سے وہ جہنم میں گر جاتا ہے۔‘‘ 6۔ اس آیت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آواز بلند کرنے سے کس قدر ڈرتے اور اس سے بچتے تھے اس کا اندازہ ایک تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عمل سے ہوتا ہے جس کا تذکرہ اسی آیت کی تفسیر کے پہلے فائدے میں ہوا ہے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کا رویہ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’جب یہ آیت اتری : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ﴾ اب ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی آواز بہت بلند تھی تو وہ کہنے لگے : ’’میں ہی اپنی آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند کیا کرتا تھا، میرا عمل تو ضائع ہو گیا، میں اہلِ نار سے ہوں۔‘‘ اور وہ غمگین ہو کر گھر میں بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نہ دیکھا تو ان کے بارے میں پوچھا۔ کچھ لوگ ان کے پاس گئے اور ان سے کہا : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں تلاش کر رہے تھے، تمھیں کیا ہوا؟‘‘ کہنے لگے : ’’میں ہی ہوں جو اپنی آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند کرتا تھا اور اونچی آواز سے بات کرتا تھا، میرا عمل ضائع ہو گیا اور میں اہلِ نار سے ہوں۔‘‘ لوگوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی بات بتائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لاَ، بَلْ هُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ)) ’’نہیں، بلکہ وہ اہلِ جنت سے ہے۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’پھر ہم انھیں اپنے درمیان چلتا پھرتا دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ جنتی ہیں۔ تو جب یمامہ (مسیلمہ کذاب سے جنگ) کا دن ہوا تو ہم میں پیچھے ہٹنے کے کچھ آثار ظاہر ہوئے۔ ایسے میں ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ آئے، انھوں نے میت والی خوشبو لگا رکھی تھی اور کفن پہنا ہوا تھا۔ کہنے لگے : ’’تم نے اپنے ساتھیوں کو (پیچھے ہٹنے کی) بہت بری عادت ڈال دی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر لڑنے لگے، حتیٰ کہ قتل کر دیے گئے۔‘‘ [ مسند أحمد :3؍ 137، ح : ۱۲۴۰۸ ] اس کی سند صحیح ہے۔ تفسیر ابن کثیر کے محقق لکھتے ہیں کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو یہ خیال اس لیے ہوا کہ بنو تمیم (جن کے بارے میں یہ آیات اتریں) ان کے سامنے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) انھوں نے ہی خطبہ دیا تھا۔ دیکھیے البدایہ والنہایہ (۵؍۴۲) اور فتح الباری (۸؍۵۹۱)۔