مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے (١) مثل اس کھیتی کے جس نے انکھوا نکالا (٢) پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا (٣) تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے (٤)، ان ایمان والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے (٥)
1۔ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ: ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’ لفظ ’’ مُحَمَّدٌ ‘‘ مبتدا اور ’’ رَسُوْلُ اللّٰهِ ‘‘ خبر ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’رسول اللہ‘‘ کہنے کے بعد اور کسی تعریف کی ضرورت نہیں سمجھی، کیونکہ اس میں تمام انسانی کمال اور خوبیاں آ جاتی ہیں۔ اس لیے آگے ’’ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ ‘‘ کی صفت بیان فرمائی ہے۔‘‘ اس مقام پر اس جملے سے کئی باتیں واضح ہو رہی ہیں، ایک یہ کہ قرآن مجید میں عموماً آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب یا آپ کا ذکرِ خیر آپ کے نام کے بجائے آپ کے القاب کے ساتھ ہوا ہے، مثلاً ’’ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ ‘‘، ’’ يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ ‘‘، ’’ شَاهِدًا ‘‘، ’’ مُبَشِّرًا ‘‘، ’’ نَذِيْرًا ‘‘،’’ دَاعِيًا اِلَي اللّٰهِ ‘‘ اور’’ سِرَاجًا مُّنِيْرًا ‘‘ وغیرہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ’’محمد‘‘ صرف چار جگہ آیا ہے، دیکھیے سورئہ آل عمران (۱۴۴)، احزاب (۴۰)، سورۂ محمد(۲) اور زیر تفسیر آیت۔ ان چاروں مقامات میں آپ کا نام لانے میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ یہاں حکمت یہ ہے کہ اس بات کا اعلان کر دیا جائے کہ اگر کفارِ مکہ نے حمیتِ جاہلیت میں آ کر اصرار کیا ہے کہ معاہدے میں ’’محمد رسول اللہ‘‘ نہ لکھو اوران کے اصرار پر صلح کی خاطر ’’محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب‘‘ لکھ دیا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، کفار کے نہ ماننے سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ دوسرا مقصد اس سوال کا جواب دینا ہے کہ تمام ادیان پر یہ دین کیسے غالب ہو گا؟ فرمایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام دینوں پر غلبہ اپنے ذاتی کمال یا ذاتی جد و جہد کی وجہ سے نہیں ہو گا بلکہ اس لیے ہو گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ’’رسول اللہ‘‘ ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں، جنھیں اس نے بھیجا ہی اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرنے کے لیے ہے، پھر اللہ کے بھیجے ہوئے کو غالب آنے سے کون روک سکتا ہے؟ 2۔ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ: اس میں ان پاکباز ہستیوں کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس ہدایت اور دین حق کو روئے زمین پر غالب کرنے والا تھا۔ ’’ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ ‘‘ (وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں) اس لفظ میں تمام صحابہ کرام شامل ہیں، خواہ انھیں آپ کے ساتھ رہنے کی لمبی مدت ملی ہو یا تھوڑی۔ حدیبیہ میں جو لوگ آپ کے ساتھ تھے وہ اس لفظ کا اوّلین مصداق ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ایسی اکسیر تھی کہ جس مومن کو حاصل ہو گئی اس کی طبیعت کا رنگ ہی بدل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں شہادت اور جنت کا ایسا شوق عطا فرمایا، انھیں ایسی شجاعت بخشی اور ان میں ایسی برکت رکھی کہ جب وہ حملہ آور ہوتے تو دشمن چند لمحوں میں بھاگ کھڑا ہوتا، کسی لشکر میں ایک صحابی کی موجودگی اس کی فتح کی ضمانت سمجھی جاتی۔ ان سے ملنے والوں میں بھی یہی برکت تھی۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَأْتِيْ زَمَانٌ يَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ فِيْكُمْ مَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ نَعَمْ، فَيُفْتَحُ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَأْتِيْ زَمَانٌ فَيُقَالُ فِيْكُمْ مَنْ صَحِبَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ نَعَمْ، فَيُفْتَحُ، ثُمَّ يَأْتِيْ زَمَانٌ فَيُقَالُ فِيْكُمْ مَنْ صَحِبَ صَاحِبَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ نَعَمْ، فَيُفْتَحُ )) [بخاري، الجھاد والسیر، باب من استعان بالضعفاء والصالحین في الحرب : ۲۸۹۷ ] ’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا : ’’کیا تم میں کوئی شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں!‘‘ تو انھیں فتح عطا کی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا : ’’کیا تم میں کوئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے ساتھ رہا ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں!‘‘ تو انھیں فتح عطا کی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا : ’’کیا تم میں کوئی ہے جو اس کے ساتھ رہا ہو جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں!‘‘ تو انھیں فتح عطا کی جائے گی۔‘‘ 3۔ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ: جیسا کہ پچھلے فائدے میں گزرا کہ ’’ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ ‘‘ (وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں) سے مراد سب سے پہلے وہ صحابہ ہیں جنھوں نے بیعتِ رضوان کی، پھر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں خواہ انھیں ایک لمحہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا ہو۔ مفسر بقاعی نے فرمایا : ’’ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ ‘‘ میں وہ تمام مسلمان بھی شامل ہیں جنھیں احسان اور نیکی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے کی وجہ سے آپ کے ساتھ ہونے کا شرف حاصل ہے۔‘‘ پچھلے فائدے میں مذکور حدیث سے مفسر بقاعی کی اس بات کی تائید ہوتی ہے اور قرآن مجید میں صاف الفاظ میں احسان اور نیکی کے ساتھ اتباع کرنے والوں کو سابقون اوّلون کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت میں داخلے کی بشارت دی ہے۔ مزید وضاحت کے لیے سورۂ توبہ کی آیت (۱۰۰) : ﴿ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ ﴾ کی تفسیر پر نظر ڈال لیں۔ زیر تفسیر آیت میں کھیتی کی مثال صحابہ کے ساتھ قیامت تک ان کے پیروکاروں کو بھی ملانے سے پوری طرح مکمل ہوتی ہے۔ 4۔ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ: ان الفاظ میں صحابہ کرام اور امتِ مسلمہ کی تعریف فرمائی ہے کہ ان کا اللہ اور اس کے رسول پر ایسا ایمان ہے کہ ان کی دوستی اور دشمنی کے جذبات بھی ان کے ایمان کے تابع ہو گئے ہیں۔ کوئی کافر ہے تو وہ اس کے دشمن اور اس کے مقابلے میں نہایت سخت ہیں اور اگر کوئی مومن ہے تو وہ اس کے دلی دوست اور اس پر بے حد مہربان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار پر سختی کرنے اور ان کے ساتھ جہاد کا حکم دیا، فرمایا: ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِيْنَ وَ اغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ﴾ [ التوبۃ : ۷۳ ] ’’اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘ اور مسلمانوں کو بھی یہی حکم دیا، فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ﴾ [ التوبۃ : ۱۲۳ ] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں سے لڑو جو کافروں میں سے تمھارے قریب ہیں اور لازم ہے کہ وہ تم میں کچھ سختی پائیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ ایمان والوں کا کفار کے ساتھ تعلق ان کے ایمان لانے تک ابدی عداوت و بغض کا ہے، خواہ وہ کفار ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا قریبی رشتہ دار ہوں۔ دیکھیے سورۂ ممتحنہ کی پہلی چار آیات اور سورۂ مجادلہ کی آخری آیت۔ اس کے مقابلے میں ایمان والوں پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے حد مہربان اور شفیق تھے، جیسا کہ فرمایا: ﴿لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ﴾ [ التوبۃ : ۱۲۸]’’بلاشبہ یقیناً تمھارے پاس تمھی سے ایک رسول آیا ہے، اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حرص رکھنے والا ہے، مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ اور ایمان والوں کی صفت بھی یہی ہے، فرمایا: ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ لَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ﴾ [ المائدۃ : ۵۴ ] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ عنقریب ایسے لوگ لائے گا کہ وہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے، مومنوں پر بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت، اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ اسے دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( تَرَی الْمُؤْمِنِيْنَ فِيْ تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكٰی عُضْوًا تَدَاعٰی لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمّٰی)) [بخاري، الأدب، باب رحمۃ الناس والبہائم: ۶۰۱۱ ] ’’تو ایمان والوں کو ان کے ایک دوسرے پر رحم، ایک دوسرے سے دوستی اور ایک دوسرے پر شفقت میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا، جب اس کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم اس کی وجہ سے بیداری اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا )) [ بخاري، المظالم، باب نصر المظلوم: ۲۴۴۶] ’’مومن مومن کے لیے ایک دیوار کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘ 5۔ واضح رہے کہ کافروں پر سخت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کبھی کسی کافر پر رحم نہیں کرتے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس موقع پر اللہ اور اس کے رسول کا حکم کفار پر سختی کرنے کا ہوتا ہے وہاں ان کو رشتے ناتے یا دوستی وغیرہ کے علاقے اس کام میں مانع نہیں ہوتے اور جہاں تک ان کے ساتھ رحم و کرم کے معاملے کا تعلق ہے تو خود قرآن نے اس کا فیصلہ کر دیا ہے، فرمایا: ﴿ لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَ لَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْا اِلَيْهِمْ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ (8) اِنَّمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَ اَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَ ظٰهَرُوْا عَلٰى اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَ مَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ [ الممتحنۃ : 9،8 ] ’’اللہ تمھیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنھوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تو تمھیں انھی لوگوں سے منع کرتا ہے جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا اور تمھارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی کہ تم ان سے دوستی کرو۔ اور جو ان سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘ یعنی جو کفار مسلمانوں کے لیے باعث آزار اور ان کے ساتھ برسر جنگ نہیں ان کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنے سے اللہ تعالیٰ منع نہیں کرتا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بے شمار واقعات ہیں جن میں ضعیف و مجبور یا ضرورت مند کفار کے ساتھ احسان و کرم کے معاملات کیے گئے ہیں۔ ان کے معاملہ میں عدل و انصاف کو برقرار رکھنا تو اسلام کا عام حکم ہے، عین میدان کار زار میں بھی عدل و انصاف کے خلاف کوئی کار روائی جائز نہیں۔ 6۔ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا: پچھلے جملے ’’ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ‘‘ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کا لوگوں کے ساتھ معاملہ ذکر فرمایا اور اس جملے میں ان کا اللہ کے ساتھ تعلق بیان فرمایا کہ تو انھیں رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا۔ ان کے اکثر اوقات نماز کے مبارک عمل میں گزرتے ہیں جو آدمی کو اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب کرنے والا عمل ہے، کیونکہ ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( أَقْرَبُ مَا يَكُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ)) [مسلم، الصلاۃ، باب ما یقال في الرکوع والسجود؟ : ۴۸۲] ’’بندہ اپنے رب کے سب سے قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے۔ تو بہت زیادہ دعا کیا کرو۔‘‘ ان کے دل مسجد کے ساتھ ہی معلق ہوتے ہیں، روزانہ پانچ مرتبہ اللہ کے گھر میں آ کر یہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور وہاں سے نکلتے ہیں تو دھیان ادھر ہی رہتا ہے، پھر رات کو بھی قیام کرتے ہیں۔ 7۔ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا: چونکہ رکوع و سجود ریا کے لیے بھی ہو سکتے ہیں اس لیے اس جملے میں صحابہ کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ساتھیوں کے اخلاص کی شہادت دی ہے کہ ان کے رکوع و سجود ریا یا دکھلاوے کے لیے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مزید نعمتوں اور اس کی رضا کی طلب کے لیے ہوتے ہیں۔ اس میں ان کی ہمت کی بلندی کا بھی بیان ہے کہ وہ اعلیٰ چیز کے طلب گار ہیں جس سے بڑی کوئی چیز نہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ ﴾ [ التوبۃ : ۷۲ ]’’اور اللہ کی طرف سے تھوڑی سی خوشنودی و رضا سب سے بڑی چیز ہے۔‘‘ دنیائے دنی یا دوسری ادنیٰ چیزیں ان کی بلند نگاہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں۔ 8۔ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ: بعض لوگوں نے سجدے کے اثر سے مراد پیشانی پر پڑنے والا گٹا لیا ہے، جسے عام طور پر محراب کہا جاتا ہے۔ کسی مخلص مسلمان کے ماتھے پر سجدے کی رگڑ سے پڑنے والا نشان بھی یقیناً اس شناخت میں شامل ہے، مگر یہاں اس سے مراد وہ رونق اور حسن و شرافت کے آثار ہیں جو اخلاص، حسن نیت، خشیت و خشوع اور نماز کی کثرت سے چہرے پر نمایاں ہوتے ہیں۔ اگر دو آدمی رات بھر بیدار رہیں، ایک شراب نوشی اور گناہ کے کاموں میں مصروف رہے، دوسرا نماز یا قرآن کی تلاوت اور ذکر میں مصروف رہے تو صبح دونوں کے چہروں میں صاف فرق نظر آئے گا۔ یہی فرق سچے و جھوٹے، دغا باز و باوفا، ظالم و عادل، بدکار و پاک دامن اور متکبر و متواضع کے چہروں پر نمایاں ہوتا ہے۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل کیا ہے : (( ’’ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ ‘‘ يَعْنِي السَّمْتَ الْحَسَنَ )) [ طبری : ۳۱۸۹۱ ] ’’یعنی اس سے مراد خوب صورت انداز اور ہیئت ہے۔‘‘ ابن کثیر میں ہے، منصور نے مجاہد سے سنا کہ اس سے مراد خشوع ہے۔ منصور کہتے ہیں، میں نے کہا، میں تو اس سے مراد وہی نشان سمجھتا تھا جو چہرے پر پڑ جاتا ہے، تو انھوں نے فرمایا: ’’وہ نشان تو بعض اوقات ایسے لوگوں کے ماتھے پر بھی ہوتا ہے جو فرعون سے بھی زیادہ سنگ دل ہوتے ہیں۔‘‘ خلاصہ یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے چہروں پر، صحابہ ہوں یا ان کے متبعین، خاص قسم کا نور اور رونق ہوتی ہے جس سے وہ دوسرے تمام لوگوں سے الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہاں بعض مفسرین نے ایک روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کی ہے : (( مَنْ كَثُرَ صَلَاتُهُ بِاللَّيْلِ حَسُنَ وَجْهُهُ بِالنَّهَارِ )) ’’جو شخص رات کو کثرت سے نماز پڑھے دن کو اس کا چہرہ خوبصورت ہو گا۔‘‘ مگر اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، بلکہ یہ ایک راوی شریک کا قول ہے۔ 9۔ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ: ’’مَثَلٌ‘‘ کا معنی مثال بھی ہوتا ہے اور وصف بھی، یہاں مراد وصف ہے، یعنی ان کا یہ وصف کہ سجدے اور عبادت کی تاثیر سے ان کی شناخت ان کے چہروں سے ظاہر ہوتی ہے، یہ تورات میں بیان ہوا ہے۔ اس وقت یہود و نصاریٰ کے ہاتھ میں جو تورات ہے اگرچہ انھوں نے اس میں کئی طرح کی تحریف کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کی صفات اکثر حذف کر دی ہیں اور بعض میں تبدیلی کر دی ہے، اس کے باوجود اس کی پانچویں کتاب ’’استثنا‘‘ کے باب (۳۳) اور فقرہ (۲) میں ہے : ’’خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا، فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کے لیے تھی۔‘‘ اس پیش گوئی کا مصداق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ اس میں جبل فاران سے جلوہ گر ہونے اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آنے کا صاف حوالہ موجود ہے اور یہ مسلّم بات ہے کہ فاران حجاز کے ایک پہاڑ کا نام ہے اور فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار صحابہ کے ساتھ آئے تھے۔ ظاہر ہے قدوسیوں سے مراد اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ صفات اور عبادت گزار بندے ہیں، قرآن مجید میں اس کی جگہ ’’ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ اور آتشیں شریعت کے بجائے ’’ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ‘‘ کہہ کر جہادی شریعت کا ذکر فرمایا ہے۔ تنبیہ : ’’دس ہزار‘‘ کے الفاظ بائبل کے سابقہ ایڈیشنوں میں موجود ہیں، حالیہ ایڈیشنوں میں تحریف کر کے بعض سے یہ عدد نکال دیا گیا ہے اور بعض میں اسے ’’لاکھوں‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ 10۔ وَ مَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ ....: تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے تقویٰ و تقدس، جہادی شریعت اور ان کے غلبہ و اقتدار کی صفت بیان ہوئی ہے اور انجیل میں امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتدریج قلت سے کثرت کی طرف اور کمزوری سے قوت کی طرف بڑھنے کو مثال کے ساتھ واضح فرمایا ہے کہ ان کی ابتدا اگرچہ کمزور ہو گی لیکن آخر کار وہ ایسے تناور درخت کی شکل اختیار کر جائیں گے جس کے سائے میں بڑی بڑی قومیں پناہ لیں گی۔ چنانچہ انجیل متی، باب (۱۳)، فقرہ (۳ تا ۹) میں یہ مثال اس طرح بیان ہوئی ہے : ’’اس (مسیح) نے ایک اور تمثیل ان کے سامنے پیش کرکے کہا کہ آسمان کی بادشاہت اس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بو دیا، وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے لیکن جب بڑھ جاتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا ہوتا ہے اور ایسا درخت ہو جاتا ہے کہ ہوا کے پرندے اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں۔‘‘ یہی مثال الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ انجیل مرقس، باب (۴)، فقرہ (۳۔۹) اور انجیل لوقا، باب (۱۳)، فقرہ (۱۸۔ ۲۱) میں بھی آئی ہے۔ (منقول از تفسیر ثنائی) قرآن مجید میں کھیتی کی مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر حدیبیہ والے سال تم مکہ میں داخل نہیں ہو سکے تو اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں اور تمھیں یہ سبق سکھانا بھی مقصود ہے کہ اسلام کا عروج و کمال یک لخت نہیں بلکہ تدریج کے ساتھ ہو گا، جیسا کہ کھیتی بتدریج کمال کو پہنچتی ہے۔ پہلے وہ بیج سے نازک سی کونپل یا سوئی نکالتی ہے، پھر اسے مضبوط کرتی ہے، پھر خوب موٹی ہو جاتی ہے، پھر اس کا پودا اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے، پھر اس کے ساتھ اور پودے اگتے چلے جاتے ہیں اور کھیت بھر جاتا ہے جس سے کاشت کرنے والوں کا دل خوش ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک دن آنے والا ہے کہ ہدایت اور دین حق کی یہ کھیتی جو اوّل اوّل سر زمین عرب میں کاشت کی گئی، اپنے کمال کو پہنچے گی، مشرق و مغرب اس سے بھر جائیں گے، اپنی آبیاری اور دیکھ بھال کرنے والوں کے دلوں کو خوش کرے گی اور ان لوگوں کے دلوں کو غم و غصہ سے جلائے گی جنھوں نے اس کی نشوونما کو روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ 11۔ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ: ’’ لِيَغِيْظَ ‘‘ کا لام فعل مقدر کے متعلق ہے جو گزشتہ عبارت سے خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے : ’’ أَيْ جَعَلَهُمُ اللّٰهُ كَذٰلِكَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ صحابہ کرام اور ان کے متبعین کو اس طرح بتدریج کمال و عروج تک پہنچائے گا، تاکہ ان کے ساتھ کفار کو غصہ دلائے اور ان کے دلوں کو جلائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دعوتِ حق لے کر آئے اسے قبول کرنے والے اور اسے پوری دنیا پر غالب کرنے کے لیے اپنی جان، اپنا مال اور سب کچھ قربان کرنے والے صحابہ کرام تھے اور ان کے بعد ان سے محبت رکھنے والے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے تابعین اور بعد کے لوگ تھے جن کے ذریعے سے یہ دین حق ساری دنیا میں پھیلا اور غالب ہوا۔ ایمان والوں کے دل صحابہ کرام اور ان کے متبعین کے حالات دیکھ کر اور سن کر خوش ہوتے ہیں اور کفار کے دل انھیں دیکھ کر اور ان کے حالات سن کر غصے سے بھر جاتے ہیں اور جل اٹھتے ہیں۔ تفسیر التحریر والتنویر (۲۶؍۱۷۷) میں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا : (( مَنْ أَصْبَحَ مِنَ النَّاسِ فِيْ قَلْبِهِ غَيْظٌ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَصَابَتْهُ هٰذِهِ الْآيَةُ )) ’’لوگوں میں سے جس شخص کے دل میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک پر بھی غصہ اور جلن ہو، یہ آیت اس پر یقیناً لاگو ہوتی ہے۔‘‘ ابنِ عاشور نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ امام مالک پر رحم کرے، ان کا استنباط کس قدر باریک ہے۔ ‘‘ 12۔ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ ....: شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اور کھیتی کی کہاوت یہ کہ اوّل ایک آدمی تھا اس دین پر، پھر دو ہوئے پھر قوت بڑھتی گئی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اور خلیفوں کے اور یہ وعدہ دیا ان کو جو ایمان لائے اور بھلے کام کرتے ہیں۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب اصحاب ایسے ہی تھے، مگر خاتمہ کا اندیشہ رکھا۔ حق تعالیٰ بندوں کو ایسی خوش خبری نہیں دیتا کہ نڈر ہو جائیں، مالک سے اتنی شاباش بھی غنیمت ہے۔‘‘