سورة الفتح - آیت 26

إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جب کہ (١) ان کافروں نے اپنے دلوں میں غیرت کو جگہ دی اور غیرت بھی جاہلیت کی، سو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی (٢) اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تقوے کی بات پر جمائے رکھا (٣) اور وہ اس کے اہل اور زیادہ مستحق تھے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِذْ جَعَلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِيَّةَ: لفظ ’’ اِذْ ‘‘ پچھلی آیت کے آخر میں ’’ لَعَذَّبْنَا ‘‘ کا ظرف ہے، یعنی اگر وہ مومن مرد اور مومن عورتیں کفار سے الگ ہو گئے ہوتے ’’تو ہم ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، دردناک سزا دیتے، جب ان کفر کرنے والوں نے اپنے دل میں ضد رکھ لی تھی…۔‘‘ اور فعل محذوف ’’اُذْكُرْ‘‘ کا مفعول بہ بھی ہو سکتا ہے، یعنی اس وقت کو یاد کر جب .... ۔ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ: جاہلیت کی ضد سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے وہ بات ماننے سے بھی انکار کر دیا جو تمام عرب کے ہاں مسلّم تھی کہ اللہ کے گھر سے کسی طواف یا عمرہ یا حج ادا کرنے والے کو روکا نہیں جا سکتا اور حرمت والے مہینوں میں لڑنے کی اجازت نہیں۔ بلکہ وہ لڑنے پر تیار ہو گئے اور کہنے لگے، ہم یہ عار برداشت نہیں کر سکتے کہ ہم سے زبردستی کوئی مکہ میں داخل ہو، اس لیے اس سال مسلمان واپس چلے جائیں، آئندہ سال آ کر عمرہ ادا کر لیں، وہ بھی صرف تین دن ٹھہریں اور اسلحہ میں صرف تلوار لا سکتے ہیں جو نیام میں ہو۔ اس کے علاوہ ان کا بات بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الجھنا اور صلح کے لیے ناروا شرطیں لگانا بھی جاہلیت کی ضد تھی، مثلاً یہ کہنا کہ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘ کے بجائے ’’بِاسْمِكَ اللّٰهُمَّ‘‘ لکھو اور ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے بجائے ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ لکھو اور کوئی شخص مسلمان ہو کر تمھارے پاس جائے تو اسے واپس کرو، لیکن اگر کوئی مرتد ہو کر ہمارے پاس آئے تو ہم اسے واپس نہیں کریں گے۔ اسی طرح سہیل بن عمرو کا اپنے مسلمان ہو جانے والے بیٹے ابوجندل کو عین معاہدے کے درمیان آ کر اپنی حالت زار دکھانے کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ جانے کی اجازت دینے سے انکار اور سب کے سامنے اس پر تشدد بھی جاہلیت کی ضد تھی۔ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ: سکینت سے مراد وہ تحمل و حوصلہ اور صبر و وقار ہے جس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے کفارِ مکہ کی جاہلانہ حمیت کا مقابلہ کیا کہ نہ مشتعل ہوئے، نہ کوئی ناحق بات زبان سے کہی اور نہ اپنے کسی عمل سے کفار کو لڑائی چھیڑنے کا موقع دیا۔ 4۔ اس آیت کے الفاظ پر غور کریں تو کفار اور مسلمانوں کے طرزِ عمل کے درمیان اور اللہ تعالیٰ کے ان کے ساتھ معاملے کے درمیان فرق کا اندازہ ہوتا ہے : (1)کفار نے اپنے دلوں میں حمیت یعنی ضد رکھ لی، سوچے سمجھے بغیر یہ ضد رکھنے والے وہ خود تھے۔ اس کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے دلوں میں سکینت تھی، جو اپنے خزانے سے نازل کرنے والا اللہ تعالیٰ تھا۔ (2)کفار کے دلوں میں موجود ضد جاہلیت کی ضد تھی، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے دلوںمیں سکینت ربانی سکینت تھی۔ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى: وہ تقویٰ کی بات یہ تھی کہ مسلمان تنگی ترشی، جوش، غضب، غرض ہر طرح کے حالات میں اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا پابند بنائے رکھیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مشتعل جذبات کو سکون بخش کر اور اپنے حکم کی پابندی پر قائم رکھ کر صلح کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ وَ كَانُوْا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَا: اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے، کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے تھے اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور آپ کی تربیت پانے کا شرف حاصل تھا۔ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا: اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہر چیز کو پوری طرح جاننے والا ہے۔ اس علم ہی کے ساتھ اس نے ان پاکیزہ ہستیوں کو تقویٰ کے سب سے زیادہ حق دار اور اہل جان کر اپنے رسول کی صحبت کے لیے چنا، اس کی اطاعت کی توفیق بخشی اور انھیں تقویٰ کی بات پر قائم رکھا۔