وَلَوْ قَاتَلَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوَلَّوُا الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
اگر تم سے کافروں سے جنگ کرتے تو یقیناً پیٹھ دکھا کر بھاگتے پھر نہ تو کوئی کارساز پاتے نہ مددگار (١)۔
1۔ وَ لَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ: اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے کفار کے ہاتھ تم سے روک دیے کہ وہ لڑائی سے باز رہے، اب فرمایا کہ حدیبیہ کے مقام پر بظاہر دب کر جو صلح کی جا رہی تھی وہ بزدلی کی بنا پر یا اس خطرے کے پیش نظر نہیں تھی کہ مسلمانوں کو شکست ہو جائے گی، بلکہ اس میں بہت سی حکمتیں ملحوظ تھیں، جن میں بعض کا ذکر گزر چکا اور کچھ آگے بیان ہو رہی ہیں۔ چنانچہ فرمایا کہ اگر اس موقع پر کفار تم سے لڑ پڑتے تو یقیناً پیٹھیں پھیر کر بھاگ جاتے اور مکہ اسی وقت فتح ہو جاتا مگر یہ مصلحت کے خلاف تھا۔ 2۔ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّ لَا نَصِيْرًا:’’ ثُمَّ ‘‘ (پھر) کے لفظ کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد خواہ کتنی مدت گزر جائے اور خواہ ان مشرکین کی تعداد کتنی ہو جائے کسی وقت بھی انھیں کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔