وَأُخْرَىٰ لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّهُ بِهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا
اور تمہیں اور (غنیمتیں) بھی دے جن پر اب تک تم نے قابو نہیں پایا اللہ تعالیٰ نے انہیں قابو کر رکھا ہے (١) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
1۔ وَ اُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهَا ....: ’’اُخْرٰى‘‘ ’’مَغَانِمَ‘‘ کی صفت ہے جو یہاں محذوف ہے اور اس کا عطف ’’ مَغَانِمَ كَثِيْرَةً‘‘ پر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان غنیمتوں کے علاوہ، جن کا اوپر ذکر ہوا، کئی اور غنیمتوں کا بھی وعدہ فرمایا ہے جن پر تم قادر نہیں ہوئے، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں گھیرے میں لے لیا ہے۔ اس سے مراد سب سے پہلے فتح مکہ ہے جو فتح الفتوح تھی۔ مسلمان حدیبیہ والے سال اور اس سے اگلے سال اسے حاصل نہیں کر سکے مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں اس کا فیصلہ ہو چکا تھا، چنانچہ صلح حدیبیہ ہی اس کا پیش خیمہ بنی۔ اس صلح کی ایک شرط یہ تھی کہ جو قبیلہ چاہے مسلمانوں کا حلیف بن جائے اور جو چاہے قریش مکہ کا حلیف بن جائے اور کوئی کسی کے خلاف یا اس کے حلیف کے خلاف جنگ نہ کرے۔ اس موقع پر بنو خزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف اور بنو بکر قریش مکہ کے حلیف بن گئے۔ مشرکین صلح کے بعد صرف دو سال تک معاہدہ پر قائم رہے، پھر ان کے حلیف قبیلہ بنو بکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا، جس میں قریش نے اسلحے اور آدمیوں کے ساتھ ان کی مدد کی اور کعبہ میں پناہ لینے کے باوجود انھیں قتل کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے معاہدہ توڑنے کی اطلاع ملی تو آپ نے نہایت اخفا کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ مکہ کی طرف کوچ فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے مکہ فتح فرما دیا۔ لفظ عام ہونے کی وجہ سے فتح مکہ کے علاوہ وہ تمام فتوحات ’’وَ اُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهَا ‘‘ میں داخل ہیں جو اس کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہوئیں، جن میں ثقیف و ہوازن کی فتح اور تبوک وغیرہ کی فتح بھی شامل ہیں۔ روم و فارس، مصر و شام، ہند و سندھ اور زمین کے مشرق و مغرب کے وہ تمام ممالک بھی جو قیامت تک مسلمانوں کے قبضے میں آنے والے تھے۔ 2۔ قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ بِهَا وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا: یہ اس سوال کا جواب ہے جو یہاں پیدا ہو سکتا تھا کہ مدینہ کی بستی کے یہ چودہ پندرہ سو آدمی، جن کے پاس اسلحہ اور دوسری ضروریات حتیٰ کہ سامانِ خورد و نوش کی بھی کمی ہے، اتنی کثیر فتوحات اور غنیمتیں کیسے حاصل کر سکتے ہیں، جب کہ پورا عرب ان کے خلاف ہے، جن کے پاس آدمیوں، اسلحے اور ساز و سامان کی فراوانی ہے؟ فرمایا یہ لوگ واقعی وہ فتوحات اور غنیمتیں حاصل نہیں کر سکتے، مگر جب اللہ تعالیٰ نے ان کا گھیرا کر لیا ہو اور انھیں مسلمانوں کو عطا فرمانا چاہتا ہو تو پھر کون ہے جو اسے روک سکے؟ اور اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔