سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا
جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے، (١) وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدل دیں (٢) آپ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے (٣) وہ اس کا جواب دیں گے (نہیں نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو (٤) (اصل بات یہ ہے) کہ وہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں (٥)
1۔ سَيَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰى مَغَانِمَ ....: اللہ تعالیٰ نے بیعتِ رضوان میں شریک صحابہ پر اپنے بہت سے انعامات کے علاوہ، جن کا ذکر آیت (۱۸، ۱۹) میں آ رہا ہے، انھیں ایک بہت جلدی حاصل ہونے والی فتح کا وعدہ بھی فرمایا جس میں انھیں بہت سی غنیمتیں حاصل ہوں گی۔ مقصد ان کی اس دل شکنی کا ازالہ تھا جو حدیبیہ کے موقع پر ہوئی، اس کے علاوہ اس اطاعت، وفا داری اور جاں فروشی کا انعام دینا بھی تھا جس کا مظاہرہ انھوں نے اس سارے غزوہ کے دوران کیا۔ ان غنیمتوں سے مراد خیبر ہے جس کا فتح کرنا یہودیوں کی مسلسل شرارتوں اور عہد شکنیوں کی وجہ سے نہایت ضروری تھا، مگر قریش کی حمایت کی وجہ سے اس میں مشکلات در پیش تھی۔ اب قریش کی طرف سے بے فکری ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر چڑھائی کا ارادہ فرمایا۔ اس مہم میں مسلمانوں کی فتح اور بے شمار غنیمتوں کا حصول سب کو صاف نظر آ رہا تھا اور ایسے ہی ہوا کہ صلح حدیبیہ کے تین ماہ بعد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر چڑھائی کی اور بڑی آسانی سے اسے فتح فرما لیا، بلکہ خیبر کے اردگرد کی یہودیوں کی بہت سی بستیاں بھی کسی خاص مزاحمت کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آ گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی آگاہ فرما دیا کہ جب تم خیبر کی طرف غنیمتیں حاصل کرنے کے لیے روانہ ہو گے تو یہ پیچھے رہنے والے کہیں گے، ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دو۔ 2۔ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللّٰهِ: یعنی اللہ تعالیٰ نے تو ان غنیمتوں کا وعدہ اس درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں سے کیا تھا اور یہ چاہتے ہیں کہ وہ غنیمتیں ان لوگوں کو بھی مل جائیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے کے لیے گھر ہی سے نہیں نکل سکے، بیعت انھوں نے خاک کرنا تھی۔ اب ان کی بات مان لی جائے تو اللہ کی بات تو اپنی جگہ نہ رہی ۔ 3۔ قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا: آپ ان سے کہیے، تم ہمارے ساتھ ہر گز نہیں جاؤ گے، کیونکہ یہ ان لوگوں کا حق ہے جنھوں نے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا جب موت آنکھوں کے سامنے نظر آ رہی تھی۔ 4۔ كَذٰلِكُمْ قَالَ اللّٰهُ مِنْ قَبْلُ: یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ پہلے ہی کر دیا ہے کہ فتح کے ثمرات کے حق دار بھی صرف وہ ہیں جنھوں نے اس وقت ساتھ دیا جب جان و مال کی بازی لگانے کا وقت تھا۔ 5۔ فَسَيَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا: فرمایا، یہ لوگ ساتھ جانے کی اجازت نہ ملنے پر کہیں گے، بلکہ تم لوگ ہم پر حسد کرتے ہو کہ ان غنیمتوں کے حصول سے ہماری مالی حالت اچھی نہ ہو جائے۔ 6۔ بَلْ كَانُوْا لَا يَفْقَهُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا: فرمایا، مسلمانوں کو ان پر کوئی حسد نہیں اور نہ ان کی پاک فطرت میں اس کی گنجائش ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو خواہ مخواہ مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، اپنے قصور کی سمجھ نہ انھیں پہلے آئی نہ اب تک اسے سمجھ رہے ہیں (كَانُوْا میں استمرار ہے) کہ جب اس سے پہلے وہ کوئی جانی و مالی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہوئے تو اب آسانی سے ہاتھ آنے والے مالِ غنیمت میں انھیں کیسے حصے دار بنایا جا سکتا ہے اور جب پہلے ان کے اموال اور گھر والوں نے انھیں گھر سے نکلنے سے روکے رکھا تو اب وہ انھیں نکلنے سے کیوں نہیں روک رہے؟ بہت کم سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالکل نہیں سمجھتے۔ قرآن مجید اور کلامِ عرب میں قلیل کا لفظ مطلق نفی کے لیے عام استعمال ہوا ہے۔