وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اور زمین اور آسمانوں کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (١)
1۔ وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: یہ ان پیچھے چھوڑ دیے جانے والے اعراب کو فرمایا جن کا اوپر ذکر ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے، اگر تم نے نفاق پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد پر جانے سے گریز پر اصرار کیا تو کسی میں طاقت نہیں کہ وہ جو عذاب دینا چاہے اس سے تمھیں بچا سکے، یا اگر وہ تمھاری ندامت اور توبہ پر تمھیں معاف کر دے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ 2۔ يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَآءُ ....: اس میں ان اعراب کو توبہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی طرف پلٹ آنے کی ترغیب دی ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے بیٹھ رہنے سے توبہ کر لو، کیونکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو معاف کرنے والا اور ان پر رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفت آج نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے۔ 3۔ ’’ يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَآءُ ‘‘ کی تقسیم سے معلوم ہوا کہ پیچھے رہنے والوں میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو نفاق سے توبہ کرکے اخلاص کی نعمت سے سرفراز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت و رحمت سے فیض یاب ہوں گے اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جو نفاق سے توبہ نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ انھیں عذاب دے گا۔ آگے آیت : ﴿ قُلْ لِّلْمُخَلَّفِيْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ ....﴾سے بھی یہ بات واضح ہو رہی ہے۔