سورة الفتح - آیت 12

بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

نہیں بلکہ تم نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ پیغمبر اور مسلمانوں کا اپنے گھروں کی طرف لوٹ آنا قطعًا ناممکن ہے اور یہی خیال تمہارے دلوں میں رچ گیا تھا اور تم نے برا گمان کر رکھا تھا (١) دراصل تم لوگ ہو بھی ہلاک ہونے والے۔ (٢)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ يَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ....: یعنی تمھارے پیچھے رہنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ تم نے سمجھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان، جو احرام باندھ کر جا رہے ہیں، پورا اسلحہ بھی ساتھ لے کر نہیں جا رہے اور اس دشمن کے پاس جا رہے ہیں جس نے سیکڑوں میل دور سے آکر مدینہ میں ان کے کئی آدمی قتل کر دیے اور سخت نقصان پہنچایا، یہ وہیں کاٹ ڈالے جائیں گے، کوئی بچ کر واپس نہیں آئے گا۔ وَ زُيِّنَ ذٰلِكَ فِيْ قُلُوْبِكُمْ: یعنی تمھیں اپنے پیچھے رہنے پر کوئی ندامت بھی نہ تھی، بلکہ دل میں خوش تھے کہ ہم نے بہت اچھا کیا کہ ساتھ نہیں گئے۔ ’’یہ بات تمھارے دلوںمیں مزین کر دی گئی‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے فعل مجہول ’’ زُيِّنَ ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا۔ مزین کس نے کیا، اس کی صراحت نہیں فرمائی، کیونکہ وہ متعدد چیزیں ہیں، مثلاً دنیا کی مرغوبات، آدمی کا نفس، شیطان اور برے ساتھی وغیرہ۔ وَ كُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا: ’’ بُوْرًا ‘‘ ’’بَائِرٌ‘‘ کی جمع ہے جو ’’بَارَ يَبُوْرُ بَوْرًا‘‘ (ن) سے اسم فاعل ہے، ہلاک ہونے والے۔ یعنی اصل بات یہ ہے کہ تم شروع سے اپنی نامردی اور بزدلی کی وجہ سے تھے ہی ہلاک ہونے والے، کیونکہ بہادر مومن تو ایک دفعہ مرتا ہے جبکہ بزدل منافق ہر گھڑی مرتا ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ﴾ [المنافقون:۴ ] ’’(ایسے بزدل ہیں کہ) ہر اونچی آواز کو اپنے آپ پر آنے والی (آفت) ہی سمجھتے ہیں۔‘‘