سورة الفتح - آیت 10

إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں (١) ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے (٢) تو جو شخص عہد شکنی کرے وہ اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے (٣) اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے (٤) تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ: سیاق کے لحاظ سے اس بیعت سے مراد بیعت رضوان ہے اور مفسرین نے اس کا مصداق اسی کو قرار دیا ہے، اگرچہ ’’ يُبَايِعُوْنَكَ ‘‘ کے لفظ میں ہر وہ بیعت شامل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی گئی، خواہ بیعت رضوان ہو یا اس سے پہلے یا بعد کی کوئی بیعت۔ اسے بیعت اس لیے کہتے ہیں کہ مسلمان اس عہد کے ذریعے سے اپنی جان اور اپنا مال جنت کے بدلے میں فروخت کر دیتا ہے۔ اسلام کا مطلب بھی یہی ہے کہ جس نے اسلام قبول کیا وہ اپنی جان اور اپنا مال اللہ تعالیٰ کے ہاتھ فروخت کر چکا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَ يُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ وَ الْقُرْاٰنِ وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ﴾ [ التوبۃ : ۱۱۱ ] ’’بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اس کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ تو اپنے اس سودے پر خوب خوش ہو جاؤ جو تم نے اس سے کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم اور اس کا شرف بیان کرنے کے لیے فرمایا : ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ﴾ ’’بے شک وہ لوگ جو تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔‘‘ یہ ایسے ہی ہے جیسے فرمایا : ﴿ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ﴾ [ النساء : ۸۰ ] ’’اور جو رسول کی اطاعت کرے تو بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ کیونکہ رسول، اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ ہے، اس لیے اس کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور اس کے ہاتھ پر بیعت اس کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے بیعت ہے۔ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ: ’’ يَدُ اللّٰهِ ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’اللہ کا ہاتھ‘‘ اور اللہ کے ہاتھ کی کیفیت مخلوق کے علم و ادراک سے بلند ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کے فرمائے ہوئے الفاظ پر اکتفا کرنا چاہیے کہ ’’اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔‘‘ رہی یہ بات کہ کیسے ہے؟ تو یہ بات اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ مفسرین نے یہاں مختلف تاویلیں کی ہیں اور سب تاویلوں کا باعث یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں جیسا سمجھا اور اس کا ہاتھ اوپر ہونے کو اپنا ہاتھ اوپر ہونے کی طرح سمجھا، اس لیے اس کا انکار کر دیا یا تاویل کر دی۔ حالانکہ یہ بات بہت سی آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے اور یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بھی یہ آیات سنیں، کسی نے تاویل کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی، نہ کسی نے انکار کیا، جو الفاظ جس طرح آئے اسی طرح مان لیے۔ ہمیں بھی اس چکر میں نہیں پڑنا چاہیے کہ اللہ کا ہاتھ کیسا ہے اور ان کے ہاتھوں کے اوپر کس طرح ہے۔ 3۔ بیعتِ رضوان وہ بیعت ہے جو حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ایک درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر کی تھی۔ ان کی تعداد اکثر صحیح روایات کے مطابق چودہ سو تھی، بعض صحابہ نے پندرہ سو بھی بیان کی ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ چودہ سو اور پندرہ سو دونوں روایتیں موجود ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تطبیق یہ دی ہے کہ ان کی تعداد چودہ سو اور پندرہ سو کے درمیان تھی، بعض اوقات زائد کو چھوڑ کر چودہ سو بیان کر دیے اور بعض اوقات درمیان کا عدد پورا کرکے پندرہ سو بیان کر دیے۔ احادیث میں ہے کہ ان تمام صحابہ نے یہ بیعت کی، صرف جد بن قیس نامی شخص نے بیعت نہیں کی۔ اس بیعت کا باعث یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو حدیبیہ سے اہلِ مکہ کی طرف بات چیت کے لیے بھیجا کہ وہ مسلمانوں کو بیت اللہ کا عمرہ ادا کرنے سے نہ روکیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے واپس آنے میں دیر ہوئی تو افواہ پھیل گئی کہ انھیں قتل کر دیا گیا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑنے کا پختہ ارادہ فرما لیا اور صحابہ کو بیعت کی دعوت دی۔ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے حدیبیہ میں درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو دفعہ بیعت کرنے کا ذکر کیا تو (ان کے شاگرد) یزید نے پوچھا : ’’ اے ابو مسلم! آپ اس دن کس چیز پر بیعت کرتے تھے؟‘‘ انھوں نے فرمایا : ’’موت پر۔‘‘ [ بخاري، الجہاد والسیر، باب البیعۃ في الحرب علٰی أن لا یفروا:۲۹۶۰ ] جبکہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما نے فرمایا : ’’ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر بیعت نہیں کی بلکہ اس بات پر بیعت کی کہ ہم بھاگیں گے نہیں۔‘‘ [ مسلم، الإمارۃ، باب استحباب مبایعۃ الإمام الجیش....: ۶۸ ؍۱۸۵۶ ] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ نے موت پر بیعت کی اور بعض نے اس بات پر کہ ہم کسی صورت میدان سے فرار اختیار نہیں کریں گے اور دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے، کیونکہ کسی صورت نہ بھاگنے کا مطلب موت کے لیے تیار رہنا ہی ہے۔ چونکہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر یقینی نہیں تھی، بلکہ ان کے زندہ ہونے کا بھی امکان تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اس بیعت میں شریک فرما لیا۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے فرمایا : (( فَلَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ مَكَانَهُ، فَبَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلٰی مَكَّةَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُمْنٰی هٰذِهِ يَدُ عُثْمَانَ فَضَرَبَ بِهَا عَلٰی يَدِهِ، فَقَالَ هٰذِهِ لِعُثْمَانَ)) [بخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب مناقب عثمان بن عفان أبي عمرو القرشي رضی اللّٰہ عنہ : ۳۶۹۹] ’’اگر وادیٔ مکہ میں عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی شخص عزت والا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بجائے اسے بھیجتے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیجا اور بیعتِ رضوان عثمان رضی اللہ عنہ کے مکہ جانے کے بعد ہوئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔‘‘ پھر اسے دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا: ’’یہ عثمان کی بیعت ہے۔‘‘ کفار کو جب اس بیعت کے متعلق پتا چلا تو وہ ڈر گئے اور انھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو واپس بھیج دیا اور صلح کی کوششیں شروع کر دیں جس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ ہوئی۔ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖ: یہ بات مسلم ہے کہ ان صحابہ میں سے کسی نے اس بیعت میں کیا ہوا عہد نہیں توڑا، خصوصاً اس لیے کہ یہ بیعت خونِ عثمان کے قصاص کے لیے لڑائی کے متعلق لی گئی تھی اور اس کا دورانیہ بیعت سے لے کر صلح ہونے تک تھا۔ اس بیعت سے حاصل شدہ رضوانِ الٰہی کے لیے اتنا ہی کافی ہے، اگرچہ بعدمیں بھی ان صحابہ میں سے کسی سے میدان جہاد سے فرار ثابت نہیں۔ وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَيْهُ اللّٰهَ ....: اللہ تعالیٰ کے اس عہد کو پورا کرنے والوں کے لیے اجرِ عظیم ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے راضی ہو جانے کی بشارت کے بعد جو لوگ ان مبارک ہستیوں سے بغض یا عداوت رکھیں ان کی بدنصیبی میں کیا شک ہے۔ بِمَا عٰهَدَ عَلَيْهُ اللّٰهَ: جمہور قراء نے ’’عَلَيْهُ ‘‘ کی ’’ہاء‘‘ پر کسرہ پڑھا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ضمیر اصل میں ’’هُوَ‘‘ ہے، واؤ حذف کرنے کے بعد بھی یہ مضموم ہی رہتی ہے، جیسے ’’ لَهُ ‘‘ اور ’’ ضَرَبَهُ ‘‘ میں ہے، البتہ اس سے پہلے ’’یاء‘‘ ہو تو اس کی رعایت سے اس پر کسرہ پڑھا جاتا ہے، جیسے ’’فِيْهِ، إِلَيْهِ، عَلَيْهِ‘‘ وغیرہ میں ہے۔ یہاں حفص نے جو اس پر ضمہ پڑھا ہے آلوسی نے اس کی دو مناسبتیں بیان کی ہیں، ان میں سے ایک کی تفصیل یہ ہے کہ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیعت اور عہد کا ذکر ہے جو لفظ ’’اللّٰهَ ‘‘ کو ایسے طریقے سے ادا کرنے کا تقاضا کرتا ہے جس سے اس کی عظمت اور جلال کا اظہار ہوتا ہو کہ کتنی عظیم ہستی سے عہد کیا گیا ہے اور معلوم ہے کہ لفظ ’’ اَللّٰهُ‘‘ سے پہلے اگر کسرہ ہو تو اس کے لام کو باریک پڑھاجاتا ہے، اسے تفخیم کے ساتھ (پر کر کے) نہیں پڑھا جاتا۔ اس لیے ’’عَلَيْهُ‘‘ کی’’ہاء‘‘ پر کسرہ کے بجائے ضمہ لایا گیا ہے، تاکہ لفظ ’’ اللّٰهَ ‘‘ کی ادائیگی پوری شان و شوکت اور جلال و عظمت کے اظہار کے ساتھ ہو۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ ’’ عَلَيْهُ ‘‘ میں ’’ہاء‘‘ اصل میں ’’هُوَ‘‘ ہے، جیسا کہ پیچھے گزرا، لہٰذا اس کا اصل اعراب ضمہ ہے نہ کہ کسرہ، اس لیے اصل ضمہ کو باقی رکھنا اصل عہد کے قائم رکھنے اور پورا کرنے کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔