سورة الفتح - آیت 8

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یقیناً ہم نے تجھے گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّا اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا: سورت کے شروع سے یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے لیے فتح و نصرت، مغفرت، تکفیر سیئات اور جنت میں داخلے کی بشارت اور وعدے کا بیان ہے، جس کے ساتھ منافقین و کفار کے لیے عذاب، غضب، لعنت اور جہنم میں داخلے کی وعید کا بیان ہے۔ اب یہاں سے اس فتح مبین کے مختلف پہلوؤں کی تفصیل کا آغاز ہوتا ہے جس کی تمہید کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و منصب بیان فرمایا، تاکہ مسلمان اسے پہچانیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور جاں نثاری میں کوئی دریغ نہ کریں۔ چنانچہ فرمایا کہ ہم نے آپ کو دنیا میں لوگوں کے سامنے حق کی شہادت دینے والا، اسے تمام لوگوں تک پہنچا دینے والا، آخرت میں ان پر پیغام حق پہنچا دینے کی شہادت دینے والا، فرماں برداروں کو بشارت دینے والا اور نافرمانوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اس مقام پر اصل مقصود فتح کی بشارت اور اس سے متعلقہ معاملات ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں صرف تین الفاظ ’’ شَاهِدًا‘‘، ’’ مُبَشِّرًا‘‘ اور ’’ نَذِيْرًا ‘‘ بیان فرمائے، جبکہ سورۂ احزاب میں مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے متبنیّٰ زید رضی اللہ عنہ کی مطلقہ زینب رضی اللہ عنھا سے نکاح اور دوسرے معاملات پر منافقین کی اڑائی ہوئی گرد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پاک کرنا ہے، اس لیے وہاں سورۂ احزاب (۴۶) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ تعریف فرمائی اور ان تینوں اوصاف کے ساتھ ’’ وَ دَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِيْرًا ‘‘ (اور اللہ کی طرف بلانے والا اس کے اذن سے اور روشنی کرنے والا چراغ) بھی فرمایا۔ (ابن عاشور) ’’ شَاهِدًا ‘‘ کی تفسیر کے لیے مزید دیکھیے سورۂ احزاب (۴۵)، بقرہ (۱۴۳) اور سورۂ نساء (۴۱) ۔