وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ هِيَ أَشَدُّ قُوَّةً مِّن قَرْيَتِكَ الَّتِي أَخْرَجَتْكَ أَهْلَكْنَاهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ
ہم نے کتنی بستیوں کو جو طاقت میں تیری اس بستی سے زیادہ تھیں جس سے تجھے نکالا گیا ہم نے انہیں ہلاک کردیا جن کا مددگار کوئی نہ اٹھا۔
1۔ وَ كَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ هِيَ اَشَدُّ قُوَّةً ....: اس کا عطف ’’ اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا ‘‘ پر ہے، درمیان میں بات سے بات نکلتی گئی ہے، دوبارہ پھر وہی سلسلۂ کلام شروع فرمایا ہے۔ اس میں کفارِ مکہ کے لیے وعید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ اہلِ مکہ جنھوں نے آپ کو اپنی بستی سے نکلنے پر مجبور کر دیا، اپنی قوت و شوکت پر مغرور نہ ہوں اور آپ ان کی قوت دیکھ کر دل برداشتہ نہ ہوں، ان بے چاروں کی کیا حیثیت ہے۔ ان سے پہلے کتنی ہی بستیاں تھیں جو قوت میں ان سے کہیں زیادہ تھیں، ہم نے انھیں ہلاک کر دیا، پھر ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ دیکھیے سورۂ روم (۹، ۱۰) اور سورۂ مومن (۲۱)۔ 2۔ ’’ قَرْيَةٍ ‘‘ سے مراد قریہ والے ہیں، جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد ماجد سے کہا: ﴿ وَ سْـَٔلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا وَ الْعِيْرَ الَّتِيْ اَقْبَلْنَا فِيْهَا ﴾ [ یوسف:۸۲ ] ’’اور اس بستی سے پوچھ لے جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے بھی جس میں ہم آئے ہیں۔‘‘ اس لیے آگے ’’أَهْلَكْنَا هَا‘‘ کے بجائے ’’ اَهْلَكْنٰهُمْ ‘‘ (ہم نے انھیں ہلاک کر دیا) فرمایا، یعنی اس بستی والوں کو ہلاک کر دیا۔ پوری بستی کو نکالنے والا قرار دینے میں ناراضی کا اظہار ہے، کیونکہ کچھ نکالنے والے تھے اور کچھ خاموش رہ کر ان کا ساتھ دینے والے، جیسا کہ قومِ عاد کے متعلق فرمایا: ﴿ فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَا ﴾ [الشمس: ۱۴] ’’تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، پس اس (اونٹنی) کی کونچیں کاٹ دیں۔‘‘ حالانکہ اونٹنی کو کاٹنے والا تو ایک ہی شخص تھا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تسلی اس لیے بھی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکلنے کا شدید رنج اور صدمہ تھا۔ عبد اللہ بن عدی بن حمراء الزہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’حزوَرَه‘‘ مقام پر کھڑے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَاللّٰهِ! إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللّٰهِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰهِ إِلَی اللّٰهِ وَ لَوْ لَا أَنِّيْ أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ )) [ ترمذي، المناقب، باب في فضل مکۃ: ۳۹۲۵، و قال الألباني صحیح ] ’’ اللہ کی قسم! تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کی زمین میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ مجھے تجھ سے نکال دیا گیا تو میں نہ نکلتا۔‘‘