وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ
اور جو لوگ کافر ہوئے ان پر ہلاکت ہو اللہ ان کے اعمال غارت کر دے گا۔
1۔ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ: ’’ تَعْسًا ‘‘ کا معنی ٹھوکر کھا کر گرنا اور پھر اٹھ نہ سکنا ہے، یا کسی گڑھے میں گر کر ہلاک ہو جانا ہے۔ (مفردات) گویا اللہ کے دین کی مدد کرنے والوں کے تو اللہ تعالیٰ پاؤں جما دیتا ہے، اس کے برعکس منکروں کو منہ کے بل گرا کر ہلاک کر دیا جاتا ہے اور مومنوں کی تو مدد کی جاتی ہے جب کہ کافروں کے تمام اعمال برباد اور ان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔ (کیلانی) 2۔ ’’ تَعْسًا‘‘ کا فعل ’’ مَنَعَ ‘‘ اور ’’سَمِعَ‘‘ دونوں سے آتا ہے۔ ’’تَعْسًا‘‘ مصدر مفعول مطلق ہے جس کا فعل حذف ہونا واجب ہے : ’’ أَيْ تَعِسُوْا تَعْسًا۔‘‘ پھر ’’ تَعِسُوْا ‘‘ کو حذف کرکے ’’تَعْسًا‘‘ مصدر کو اس کے قائم مقام کر دیا اور فعل کے فاعل جمع مذکر غائب کی ضمیر کو ظاہر کر دیا۔ ابن ہشام نے فرمایا کہ ’’ لَهُمْ ‘‘ میں لام تبیین کا ہے جو ’’ تَعْسًا‘‘ کے فاعل کے بیان کے لیے ہے۔ معنی یہی ہے کہ وہ ہلاک ہوئے، بری طرح ہلاک ہونا۔