فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ
تو جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو گردنوں پر وار مارو۔ (١) اور جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تو اب خوب مضبوط قیدو بند سے گرفتار کرو (٢) (پھر اختیار ہے) کہ خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ (٣) لے کر چھوڑ دو یہی حکم ہے اور (٤) اگر اللہ چاہتا تو (خود) ہی ان سے بدلہ لے لیتا (٥) لیکن اس کا منشا یہ ہے کہ تم میں سے لے لے، ( ٦) جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کردیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ (٧)
1۔ فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ: ’’ فَاِذَا ‘‘ میں فاء کا تعلق پہلے کلام سے ہے کہ جب کفار باطل کے پیروکار اور مومن حق کے پیروکار ہیں تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ حق کے پیروکار باطل کے پیروکاروں کو یہ موقع نہ دیں کہ وہ زمین میں فساد پھیلاتے پھریں، لہٰذا جب تم (میدانِ جنگ میں) ان لوگوں سے ملو جنھوں نے کفر کیا تو ان کی گردنیں خوب اڑاؤ۔ 2۔ ’’ فَاِذَا لَقِيْتُمْ‘‘ کا لفظی معنی اگرچہ ’’جب تم ملو‘‘ ہے، مگر اس سے مراد یہ ہے کہ جب تمھارا ان سے مقابلہ ہو۔ یہ مطلب نہیں کہ جب کوئی کافر سامنے آ جائے تو اسے قتل کر دو، کیونکہ قرآن مجید اور کلامِ عرب میں ’’لقاءِ عدو‘‘ سے مراد دشمن سے مقابلہ لیا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ [الأنفال : ۴۵ ]’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم کسی گروہ کے مقابل ہو تو جمے رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ‘‘ 3۔ ’’ فَضَرْبَ الرِّقَابِ ‘‘ اصل میں ’’فَاضْرِبُوا الرِّقَابَ ضَرْبًا‘‘ ہے، فعل امر ’’فَاضْرِبُوْا‘‘ کو حذف کرکے مفعول مطلق ’’ضَرْبًا‘‘ کو اس کے قائم مقام کر دیا اور اسے مفعول بہ ’’ الرِّقَابِ ‘‘ کی طرف مضاف کر دیا۔ اس سے اختصار کے علاوہ کلام میں ہیبت اور زور بھی پیدا ہو گیا کہ کفار سے مقابلے کی صورت میں بس ایک ہی کام ہے اور وہ ہے گردنیں مارنا۔ ’’ضرب‘‘ کا لفظ عربی زبان میں تلوار کی کاٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے، نیزے کے لیے ’’طعن‘‘ اور تیر کے لیے ’’رمي‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ قوت و شجاعت اور ہیبت کا مظاہرہ آمنے سامنے تیغ زنی میں ہے، خصوصاً جب تلوار گردن پر پڑے، اس لیے ’’ فَضَرْبَ الرِّقَابِ ‘‘ فرمایا، کیونکہ جو زورِ بیان اس لفظ میں ہے کسی اور میں نہیں۔ ورنہ مراد کسی بھی طریقے سے قتل کرنا ہے، تلوار سے ہو یا تیر سے یا نیزے سے یا کسی جدید اسلحہ سے اور اس اسلحے کی چوٹ خواہ گردن پر پڑے یا جسم کے کسی اور حصے پر۔ یا بلا اسلحہ ہی دشمن کو قتل کر دیا جائے، خواہ گلا گھونٹ کر، مکا مار کر یا جسم کے کسی نازک حصے پر چوٹ مار کر، غرض مقصد دشمن کو کسی بھی طریقے سے قتل کرنا ہے۔ 4۔ حَتّٰى اِذَا اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ: ’’ أَثْخَنَ يُثْخِنُ إِثْخَانًا‘‘ (افعال) قتل اور خون ریزی میں مبالغہ کرنا۔ ’’شَدَّ يَشُدُّ شَدًّا‘‘ (ن) ’’اَلشَّيْءَ‘‘ کسی چیز کو باندھنا۔ ’’شَدَّ الْعُقْدَةَ أَوِ الْوَثَاقَ‘‘ گرہ یا رسی کو مضبوطی سے باندھنا۔ ’’ الْوَثَاقَ ‘‘ رسی وغیرہ جس کے ساتھ باندھا جائے۔ یعنی جنگ کا اصل ہدف دشمن کی جنگی قوت کو توڑنا ہے، اس لیے جنگ کی ابتدا ہی میں دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں نہیں لگ جانا چاہیے، بلکہ زیادہ سے زیادہ خونریزی اور قتل کے بعد جب ان کا اچھی طرح قلع قمع ہو جائے اور لڑائی اختتام کو پہنچ چکی ہو تو پھر بچے کھچے لوگوں کو قیدی بنانا چاہیے، تاکہ ان میں دوبارہ مقابلے کی سکت باقی نہ رہے۔ جنگِ بدر میں مسلمانوں نے دشمن کو اچھی طرح تہ تیغ کرنے سے پہلے ہی اس کے آدمیوں کو قیدی بنایا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ اَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَ اللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ﴾ [الأنفال :۶۷]’’کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے، تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ 5۔ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً: ’’ مَنًّا ‘‘ اور ’’ فِدَآءً ‘‘ مفعول مطلق ہیں جن کا فعل حذف کر دیا گیا ہے اور تنوین تنکیر کے لیے ہے : ’’ أَيْ إِمَّا تَمُنُّوْنَ عَلَيْهِمْ مَنًّا بَعْدَ ذٰلِكَ وَ إِمَّا تُفَادُوْنَهُمْ فِدَاءً ‘‘ ’’یعنی اس کے بعد یا تو ان پر احسان کر دو، کسی طرح احسان کرنا یا ان سے فدیہ لے لو، کسی طرح فدیہ لینا۔‘‘ کسی طرح احسان کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ انھیں قتل نہ کیا جائے، بلکہ ان کی جان بخشی کرکے انھیں لونڈی و غلام بنا کر مسلمان افراد کے حوالے کر دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دائمی قید یا قتل کے مقابلے میں غلام بنا لینا کوئی کم احسان نہیں، خصوصاً اسلام میں لونڈی و غلام سے جس حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے اس کے ہوتے ہوئے دائمی قید یا قتل کے مقابلے میں یہ بہت بڑی نعمت ہے، کیونکہ بہت سے کاموں کے کفارے کی صورت میں اور مکاتبت یعنی کمائی کرکے اپنی قیمت ادا کرنے کی صورت میں ان کی آزادی کے مواقع موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم سے مفتوح لوگوں کو لونڈی و غلام بنانا تواتر سے ثابت ہے اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر لونڈیوں اور غلاموں کا ذکر موجود ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۳،۲۴، ۳۶)، مومنون (۵، ۶)، احزاب (۵۰)، نحل (۷۱)، روم (۲۸)، نور (۳۱ تا ۳۳،۵۸) اور دوسری متعدد آیات۔ ان آیات و احادیث اور خلفائے راشدین کے عمل کے ہوتے ہوئے اسلام میں غلامی سے انکار کوئی ملحد ہی کر سکتا ہے، یا کوئی جاہل جسے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم نہ ہو۔ قیدیوں پر کسی طرح احسان کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ انھیں بلامعاوضہ رہا کر دیا جائے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایسا کرنا مصلحت کا تقاضا ہو، مثلاً امید ہو کہ وہ مسلمان ہو جائیں گے، یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں سے باز آ جائیں گے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے سردار ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو بلامعاوضہ رہا کر دیا۔ (دیکھیے بخاری : ۴۳۷۲) جنگ حنین کے کئی ہزار قیدیوں کو احسان فرما کر رہا کر دیا۔ (دیکھیے بخاری : ۴۳۱۸، ۴۳۱۹) صلح حدیبیہ کے موقع پر اسّی (۸۰) آدمی تنعیم کی طرف سے آئے اور فجر کی نماز کے قریب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شب خون مارنے کا ارادہ کیا، مگر وہ سب کے سب پکڑ لیے گئے، پھر آپ نے سب کو چھوڑ دیا، تاکہ یہ معاملہ لڑائی کا باعث نہ بن جائے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ﴾ [الفتح : ۲۴ ] ’’اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے، اس کے بعد کہ تمھیں ان پر فتح دے دی۔‘‘ [دیکھیے مسلم، الجہاد، باب قول اللہ تعالٰی : وھو الذی کف أیدیہم عنکم : ۱۸۰۸ ] فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند آدمیوں کو مستثنیٰ کرکے تمام اہلِ مکہ کو بطور احسان معاف فرما دیا۔ غزوۂ بنی مصطلق کے بعد جب اس قبیلے کے قیدی لائے گئے اور لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے، تو اس وقت جویریہ رضی اللہ عنھا جس شخص کے حصے میں آئی تھیں اسے ان کا معاوضہ ادا کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدا اور آزاد کرکے ان سے نکاح کر لیا۔ اس پر تمام مسلمانوں نے اپنے حصے کے قیدی یہ کہہ کر رہا کر دیے کہ یہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ دار بن چکے ہیں۔ [ دیکھیے مسند أحمد :6؍277، ح : ۲۶۴۱۹ ] قیدیوں کے ساتھ احسان کی ایک صورت یہ ہے کہ ان پر جزیہ لگا کر انھیں مسلمانوں کا ذمی بنا لیا جائے، جیسا کہ فرمایا: ﴿حَتّٰى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ﴾ [ التوبۃ : ۲۹ ] ’’یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔ ‘‘ قیدیوں پر احسان میں یہ بھی شامل ہے کہ جب تک وہ قید میں رہیں ان سے اچھا سلوک کیا جائے، ان کے کھانے پینے، لباس اور صحت وغیرہ کا خیال رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ دیکھیے سورۂ دہر کی آیت (۸): ﴿وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا ﴾ کی تفسیر۔ ’’ وَ اِمَّا فِدَآءً ‘‘ فدیہ لینے کی ایک صورت یہ ہے کہ ان سے کچھ مال لے کر انھیں آزاد کر دیا جائے، جیسا کہ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لیا گیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انفال (۷۰) کی تفسیر۔ اور فدیے کی ایک صورت یہ ہے کہ رہائی کی شرط کے طور پر کوئی خاص خدمت لینے کے بعد ہی انھیں رہا کیا جائے، مثلاً وہ ان لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں جو ان کے سپرد کیے جائیں۔ اور فدیے کی ایک صورت یہ ہے کہ کفار کے ہاتھوں گرفتار کسی مسلم قیدی کی رہائی کے بدلے میں انھیں رہا کر دیا جائے، جیسا کہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ بنو فزارہ پر حملے میں جو قیدی آئے امیرِ لشکر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک نہایت حسین لونڈی انھیں زائد عطیہ کے طور پر دی، جب وہ مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وہ لونڈی اصرار کے ساتھ ہبہ کے طورپر مانگ لی، انھوں نے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی، تو : (( فَبَعَثَ بِهَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلٰی أَهْلِ مَكَّةَ فَفَدٰی بِهَا نَاسًا مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ كَانُوْا أُسِرُوْا بِمَكَّةَ )) [مسلم، الجہاد و السیر، باب التنفیل و فداء المسلمین بالأسارٰی : ۱۷۵۵ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی کو کچھ مسلمانوں کے فدیے کے طور پر اہل مکہ کی طرف بھیج دیا، جو مکہ میں قید کیے ہوئے تھے۔‘‘ 6۔ اس آیت کے الفاظ سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ کفار کو قیدی بنا لینے کے بعد احسان یا فدیہ ہی میں سے کوئی ایک صورت اختیار کی جائے گی، انھیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے امیر کو انھیں قتل کرنے کا بھی اختیار ہے، جیسا کہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو قتل کیا۔ بنو قریظہ کے قیدیوں کو، جو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر اپنے قلعوں سے نیچے اترے انھیں قتل کیا۔ فتح مکہ کے دن ابن خطل اور مقیس بن صبابہ کو قتل کیا اور اُحد کے بعد ابوعزہ شاعر کو قتل کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ عمل کے بعد کسی کو یہ کہنے کا اختیار نہیں کہ کافر کو قید کرنے کے بعد کسی صورت قتل نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ آپ سے بڑھ کر کوئی شخص قرآن مجید کا مطلب نہیں سمجھ سکتا۔ اگر کوئی شخص آیت کے الفاظ پر غور کرے تو خود اس میں قیدیوں کو قتل کرنے کا اختیار موجود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قیدیوں کو مضبوطی سے باندھنے کے حکم کے بعد فرمایا: ﴿ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً ﴾ ’’ مَنًّا ‘‘ کا معنی انعام و احسان ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک ’’اَلْمَنَّانُ‘‘ بھی ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ انعام کرنے والے پر لازم نہیں ہوتا کہ وہ انعام کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو انعام کیے ہیں وہ نہ اللہ پر واجب تھے نہ بندوں کا حق تھے، جسے ادا کرنا اللہ کے ذمے لازم ہو۔ اس لفظ ’’ مَنًّا ‘‘ (انعام و احسان) سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا قیدیوں کو زندہ رکھنا ان کی طرف سے قیدیوں کے لیے انعام ہے۔ اگر انھیں قتل کرنے کا اختیار ہی نہ ہو بلکہ انھیں ہر حال میں زندہ رکھنا ان پر واجب ہو تو انھیں چھوڑ دینا ان پر کوئی احسان و انعام نہیں ہو گا، بلکہ انھیں چھوڑ کر ان کا حق ادا کیا جائے گا جو مسلمانوں کے ذمے واجب تھا۔ اس لیے ’’ مَنًّا ‘‘ اور ’’ فِدَآءً ‘‘ کے دو الفاظ میں وہ چاروں صورتیں آ جاتی ہیں جن کا مسلمانوں کے امیر کو اختیار ہے اور وہ ہے قتل کرنا یا غلام بنانا یا بلامعاوضہ چھوڑنا یا فدیہ لے کر چھوڑنا۔ (بقاعی) صحیح بخاری میں ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قیدی کو چھوڑنا اس کا استحقاق نہیں، اس پر انعام ہے۔ چنانچہ اس نے کہا : (( إِنْ تَقْتُلْنِيْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلٰی شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيْدُ الْمَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ )) [ بخاري، المغازي، باب وفد بني حنیفۃ....: ۴۳۷۲۔ مسلم : ۱۷۶۴ ] ’’(اے محمد!) اگر تم مجھے قتل کرو تو ایک خون والے کو قتل کرو گے اور اگر انعام کرو تو ایک شکر گزار پر انعام کرو گے اور اگر مال چاہتے ہو تو مانگو جتنا چاہتے ہو۔‘‘ 7۔ حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا: ’’ اَوْزَارَهَا ‘‘ ’’وِزْرٌ‘‘ کی جمع ہے جس کا معنی بوجھ ہے، مراد اس سے لڑائی کے ہتھیار ہیں، کیونکہ جب تک لڑائی باقی رہے ہتھیار اٹھانا پڑتے ہیں جو اٹھانے والوں کے لیے بوجھ ہوتے ہیں، یعنی کفار کی گردنیں مارتے رہو اور ان سے لڑائی جاری رکھو، حتیٰ کہ لڑائی ختم ہو جائے اور کسی کافر میں مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی جرأت اور طاقت نہ رہے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب مسلمان پوری زمین پر غالب ہوں اور کفار میں ان کے مقابل آنے کی اور ان کے حکم سے سر پھیرنے کی جرأت و ہمت باقی نہ رہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ﴾ [ الأنفال : ۳۹] ’’اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے ہو جائے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کفر و اسلام کا یہ معرکہ قیامت تک جاری رہے گا۔ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَنْ يَبْرَحَ هٰذَا الدِّيْنُ قَائِمًا، يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ حَتّٰي تَقُوْمَ السَّاعَةُ )) [ مسلم، الإمارۃ، باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’ لا تزال طائفۃ من أمتي ظاھرین علی الحق.... ‘‘ : ۱۹۲۲ ] ’’یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت اس پر لڑتی رہے گی، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو۔‘‘ 8۔ ذٰلِكَ: یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے : ’’ أَيْ اَلْأَمْرُ ذٰلِكَ‘‘ یعنی بات یہی ہے جو گردنیں مارنے، قید کرنے، احسان کرنے اور فدیہ لینے کی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی، یا یہ فعل محذوف کا مفعول بہ ہے : ’’أَيْ اِفْعَلُوْا ذٰلِكَ‘‘ یعنی یہ کام کرو۔ یہ مختصر سا لفظ گزشتہ پوری تفصیل کو ذہن میں پختہ کرنے اور اس کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے۔ 9۔ وَ لَوْ يَشَآءُ اللّٰهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ: یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اگر کفار اتنے ہی برے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود انھیں سزا کیوں نہیں دیتا؟ یعنی اللہ تعالیٰ نے گردنیں مارنے اور دوسری باتوں کا حکم تمھیں دیا ہے، حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ خود کفار سے انتقام لے سکتا ہے۔ اس کے لیے اس کی طرف سے زلزلے کا ایک جھٹکا، بجلی کی ایک کڑک، سیلاب کا ایک ریلا یا آندھی کا ایک جھونکا کافی ہے، جیسا کہ اس نے گزشتہ کئی کافر اقوام کے ساتھ کیا۔ (دیکھیے عنکبوت:۴۰) لیکن اگر وہ ایسا کرتا تو سب لوگ ہلاکت سے بچنے کے لیے ایمان لے آتے جو جبری اور اضطراری ہوتا، اپنی مرضی اور اختیار سے نہ ہوتا، اس طرح آزمائش اور امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا۔ 10۔ وَ لٰكِنْ لِّيَبْلُوَاْ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ: ’’ لِيَبْلُوَاْ‘‘ فعل محذوف کے متعلق ہے : ’’أَيْ وَلٰكِنَّهُ أَمَرَكُمْ بِالْجِهَادِ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ‘‘ ’’یعنی لیکن اس نے تمھیں جہاد کا حکم اس لیے دیا ہے کہ تمھارے بعض کو بعض کے ساتھ آزمائے‘‘ اور ظاہر ہو جائے کہ کون مخلص مومن ہے اور کون منافق، جیسا کہ فرمایا: ﴿ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ يَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ ﴾ [ آل عمران : ۱۴۲ ] ’’یا تم نے گمان کر لیا کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک اللہ نے ان لوگوں کو نہیں جانا جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا اور تاکہ وہ صبر کرنے والوں کو جان لے۔‘‘ ایمان والوں کو جہاد کا حکم دینے میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتوں میں سے چند حکمتیں اس آیت میں بیان ہوئی ہیں، فرمایا: ﴿قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَ يُخْزِهِمْ وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَ يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ (14) وَ يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ وَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ﴾ [ التوبۃ : ۱۴،۱۵ ] ’’ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔ اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ اس کی تفصیل سورۂ توبہ کی مذکورہ بالا آیات میں ملاحظہ فرمائیں۔ 11۔ وَ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَلَنْ يُّضِلَّ اَعْمَالَهُمْ: یعنی شہداء کے اللہ کی راہ میں قتل کیے جانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی جان سے گئے، انھیں کچھ بھی نہ ملا اور ان کی قربانی سے فائدہ ان لوگوں نے اٹھایا جو اس دنیا میں زندہ رہے۔ فرمایا ایسا ہر گز نہیں، اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ہر گز ضائع نہیں کرے گا، بلکہ اس سودے کا اصل نفع خود انھی کو حاصل ہو گا۔ مزید دیکھیے سورۂ توبہ (۱۱۱) کی تفسیر۔ شہداء کو ملنے والی چند نعمتوں کا ذکر اس آیت کے بعد متصل آیات میں بھی آ رہا ہے۔