سورة محمد - آیت 3

ذَٰلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِن رَّبِّهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ اس لئے کہ (١) کافروں نے باطل کی پیروی کی اور مومنوں نے اس دین حق کی اتباع کی جو ان کے اللہ کی طرف ہے، اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے احوال اسی طرح بتاتا ہے (٢)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ذٰلِكَ بِاَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ ....: یعنی کفار کے اعمال برباد کرنے اور ایمان والوں کے گناہ دور کرنے اور ان کا حال درست کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کفار نے باطل کی پیروی اختیار کی اور اس کے پیچھے چل پڑے، جبکہ ایمان والے اس حق پر چلتے رہے جو ان کا اپنا طے کردہ نہیں تھا، بلکہ ان کے رب کی طرف سے نازل کیا ہوا تھا۔ دونوں کے راستے مختلف تھے، اس لیے ان کا انجام بھی مختلف ہوا۔ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ اَمْثَالَهُمْ: ’’ أَمْثَالٌ‘‘ ’’مَثَلٌ‘‘ کی جمع ہے، اس کا معنی مثال بھی ہے اور کسی چیز کا حال اور وصف بھی، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، فرمایا: ﴿مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِيْهَا اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ ﴾ [ محمد : ۱۵] ’’اس جنت کا حال اور وصف جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس میں کئی نہریں ایسے پانی کی ہیں جو بگڑنے والا نہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے ہی سب لوگوں کے احوال بیان فرماتا ہے۔