سورة الأحقاف - آیت 33

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ ۚ بَلَىٰ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے وہ نہ تھکا، وہ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے (١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ ....: ’’ اَوَ لَمْ يَرَوْا ‘‘ سے مراد ’’أَوَ لَمْ يَعْلَمُوْا‘‘ ہے، یعنی ’’کیا انھیں معلوم نہیں؟‘‘ کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو آسمان و زمین کو پیدا کرتے ہوئے دیکھا نہیں تھا، بلکہ یہ بات وہ جانتے تھے۔ یہ اس لیے فرمایا کہ یہ بات ان کے ہاں مسلم تھی کہ آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے ساتھ قیامت کا ذکر بھی یہ کہہ کر فرمایا: ﴿ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا اِلَّا بِالْحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّى وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَمَّا اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ ﴾ [ الأحقاف : ۳ ] ’’ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان دونوں کے درمیان ہے حق اور مقررہ میعاد ہی کے ساتھ پیداکیا ہے اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اس چیز سے جس سے وہ ڈرائے گئے، منہ پھیرنے والے ہیں۔‘‘ سورت کے درمیان میں بھی یہ مضمون ذکر فرمایا: ﴿وَ الَّذِيْ قَالَ لِوَالِدَيْهِ اُفٍّ لَّكُمَا اَتَعِدٰنِنِيْ اَنْ اُخْرَجَ وَ قَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِيْ وَ هُمَا يَسْتَغِيْثٰنِ اللّٰهَ وَيْلَكَ اٰمِنْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَيَقُوْلُ مَا هٰذَا اِلَّا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ﴾ [ الأحقاف : ۱۷ ] ’’اور وہ جس نے اپنے ماں باپ سے کہا اف ہے تم دونوں کے لیے! کیا تم مجھے دھمکی دیتے ہو کہ مجھے( قبر سے) نکالا جائے گا، حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکیں۔ جب کہ وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے (ہوئے کہتے) ہیں تجھے ہلاکت ہو! ایمان لے آ، بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے۔ تو وہ کہتا ہے یہ پہلے لوگوں کی فرضی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ توحید کے ساتھ رسالت کے دلائل، منکرین پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نزول اور جنوں کے ایمان لانے کے ذکر کے بعد آخر میں پھر قیامت کے حق ہونے کا اور اس کی ایک زبردست دلیل کا ذکر فرمایا۔ یعنی یہ کفار جو انسان کے دوبارہ زندہ ہونے کو محال سمجھ رہے ہیں، کیا انھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس نے آسمان و زمین پیدا فرمائے وہ مردوں کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے؟ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کو انسان کے دوبارہ پیدا کرنے کی دلیل کے طور پر متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ بَنٰىهَا (27) رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰىهَا (28) وَ اَغْطَشَ لَيْلَهَا وَ اَخْرَجَ ضُحٰىهَا (29) وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا (30) اَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَ مَرْعٰىهَا (31) وَ الْجِبَالَ اَرْسٰىهَا (32) مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْ﴾ [ النازعات : ۲۷ تا ۳۳ ] ’’کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان؟ اس نے اسے بنایا۔ اس کی چھت کو بلند کیا، پھر اسے برابر کیا۔ اور اس کی رات کو تاریک کر دیا اور اس کے دن کی روشنی کو ظاہر کر دیا۔ اور زمین، اس کے بعد اسے بچھا دیا۔ اس سے اس کا پانی اور اس کا چارا نکالا۔ اور پہاڑ، اس نے انھیں گاڑ دیا۔ تمھاری اور تمھارے چوپاؤں کی زندگی کے سامان کے لیے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ﴾ [ المؤمن : ۵۷ ] ’’یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ وَ لَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ: یہود و نصاریٰ کی الہامی کتاب تورات کی دوسری کتاب ’’خروج‘‘ میں مذکور ہے : ’’چھ دن میں خداوند نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا اور تازہ دم ہوا۔‘‘ [ خروج، باب : ۳۱، فقرہ : ۱۷ ] تازہ دم وہ ہوتا ہے جو تھکے اور تھکنا نقصانِ قدرت پر مبنی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ میں کسی قسم کا نقصان نہیں، اس لیے تورات کی اس عبارت کی اصلاح اور یہودیوں عیسائیوں کے عقیدے کی غلطی کا اظہار کرنے کو قرآن مجید کی اس آیت میں فرمایا: ﴿وَ لَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ﴾ اللہ آسمان و زمین کو پیدا کر کے تھکا نہیں، یہ تمھارا خیال غلط ہے۔ (تفسیر ثنائی) دوسری جگہ فرمایا: ﴿وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّ مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ ﴾ [ قٓ : ۳۸ ] ’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین کواور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کسی قسم کی تھکاوٹ نے نہیں چھوا۔‘‘ 3۔ ’’ بِقٰدِرٍ ‘‘ میں ’’باء‘‘ لانے کی توجیہ ابن ہشام نے بہت عمدہ فرمائی ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’بعض اوقات کسی چیز کو اس کے معنی یا لفظ میں یا دونوں میں مشابہ چیز کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ پہلی کی کئی صورتیں ہیں، جن میں سے ایک اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’ اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ لَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ ‘‘ میں ’’ اَنَّ ‘‘ کی خبر ’’قَادِرٌ‘‘ پر باء کا داخل ہونا ہے، کیونکہ یہ ’’ أَوَ لَيْسَ اللّٰهُ بِقَادِرٍ‘‘ کے معنی میں ہے۔ یہ ’’باء ‘‘ اس لیے آئی ہے کہ ’’ اَنَّ ‘‘ کے اسم اور خبر میں بہت فاصلہ ہے۔ اسی لیے دوسری آیت: ﴿ اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰى اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ﴾ [ بني إسرائیل : ۹۹ ] میں ’’ قَادِرٌ ‘‘ پر باء نہیں آئی۔ اسی کی ایک مثال ’’ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا ‘‘ ہے، کیونکہ اس میں ’’ اِكْتَفِ بِاللّٰهِ شَهِيْدًا ‘‘ کا معنی پایا جا رہا ہے۔‘‘ (اعراب القرآن از درویش) ’’ اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ ....‘‘ کے جواب میں ’’ بَلٰى ‘‘ آنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ ’’أَوَ لَيْسَ اللّٰهُ بِقَادِرٍ‘‘ کے معنی میں ہے، کیونکہ ’’ بَلٰى ‘‘ سابقہ نفی کی تردید کے لیے لایا جاتا ہے، جب کہ ’’نَعَمْ‘‘ پہلی نفی کی تاکید کے لیے لایا جاتا ہے۔