فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
پھر جب انہوں نے عذاب کو بصورت بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے کہنے لگے، یہ بادل ہم پر برسنے والا ہے (١) (نہیں) بلکہ دراصل یہ ابر وہ (عذاب) ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے (٢) ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔ (٣)
1۔ فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا ....: ’’ رَاَوْهُ ‘‘ کی ضمیر عذاب کی طرف لوٹ رہی ہے جس کا وہ مطالبہ کرتے آتے تھے۔ ’’عَرَضَ يَعْرِضُ‘‘ سامنے آنا۔ ’’عَارِضٌ‘‘ عظیم بادل جو پہاڑوں کی طرح افق پر سامنے آیا ہوا ہو۔ قوم کے ہود علیہ السلام کو جھٹلانے اور ان پر عذاب کے درمیان کا لمبا قصہ مختصر کرکے نتیجہ بیان فرمایا ہے۔ اس آیت میں ان کے الفاظ ’’ هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ‘‘ (یہ بادل ہے جو ہم پر مینہ برسانے والا ہے) سے ظاہر ہے کہ اس عذاب سے پہلے مدت تک بارش بند رہی۔ ہود علیہ السلام نے کفر و شرک سے توبہ اور اللہ تعالیٰ سے استغفار پر انھیں بارش کی بشارت بھی دی۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَ يٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا وَّ يَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ وَ لَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِيْنَ ﴾ [ھود:۵۲] ’’اور اے میری قوم! اپنے رب سے بخشش مانگو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ، وہ تم پر بادل بھیجے گا، جو خوب برسنے والا ہوگا اور تمھیں تمھاری قوت کے ساتھ اور قوت زیادہ دے گا اور مجرم بنتے ہوئے منہ نہ موڑو۔‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ انھیں بارش کی شدید ضرورت تھی، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے کفر پر جمے رہے اور یہ کہہ کر عذاب لانے کا مطالبہ کرتے رہے کہ اگر سچے ہو تو عذاب لے آؤ، یعنی اگر فوراً عذاب نہیں لاتے تو تم جھوٹے ہو۔ ہود علیہ السلام کا جواب پیچھے گزر چکا ہے۔ آخر عذاب کا وقت آ پہنچا اور اس نے بادل کی صورت میں ان کی وادیوں کی طرف بڑھنا شروع کیا، جب انھوں نے اس عذاب کو بادل کی صورت میں اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو بہت خوش ہوئے کہ یہ بادل ہم پر بارش برسائے گا۔ 2۔ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهٖ: ممکن ہے کہ انھیں یہ جواب ہود علیہ السلام نے دیا ہو یا صورتِ حال انھیں پکار کر کہہ رہی ہو۔ 3۔ رِيْحٌ فِيْهَا عَذَابٌ اَلِيْمٌ: ’’ رِيْحٌ ‘‘ میں تنوین تہویل کے لیے ہے، بلکہ یہ وہ ہے جسے تم نے جلدی طلب کیا ہے، یہ خوفناک آندھی ہے جس میں عذابِ الیم ہے۔ اس کی کیفیت سورۂ قمر (۱۹، ۲۰) اور سورۂ حاقہ (۶ تا ۸) میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ قومِ عاد آندھی والے بادلوں کو بارش برسانے والے سمجھتے رہے، حالانکہ وہ ان پر آنے والا عذاب تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بادل اٹھتے یا ہوا تیز چلتی تو پریشان ہو جاتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : (( مَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ ضَاحِكًا حَتّٰی أَرٰی مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ، قَالَتْ وَكَانَ إِذَا رَأٰی غَيْمًا أَوْ رِيْحًا عُرِفَ فِيْ وَجْهِهِ، قَالَتْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْغَيْمَ فَرِحُوْا، رَجَاءَ أَنْ يَكُوْنَ فِيْهِ الْمَطَرُ، وَ أَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عُرِفَ فِيْ وَجْهِكَ الْكَرَاهِيَةُ، فَقَالَ يَا عَائِشَةُ! مَا يُؤْمِنِّيْ أَنْ يَكُوْنَ فِيْهِ عَذَابٌ، عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيْحِ، وَقَدْ رَأٰی قَوْمٌ الْعَذَابَ فَقَالُوْا: ﴿هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ﴾ )) [بخاري، التفسیر، تفسیر سورۃ الأحقاف : ۴۸۲۸، ۴۸۲۹ ] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ مجھے آپ کا تالو میں لٹکا ہوا گوشت کا ٹکڑا نظر آ جائے، آپ صرف مسکراتے تھے۔‘‘ فرماتی ہیں : ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بادل یا ہوا دیکھتے تو وہ آپ کے چہرے میں پہچانی جاتی۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! لوگ جب بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہو جاتے ہیں، اس امید پر کہ اس میں بارش ہو گی اور میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ جب اسے دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے میں ناگواری پہچانی جاتی ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اے عائشہ ! مجھے اس سے کیا چیز بے خوف کرتی ہے کہ اس میں کوئی عذاب ہو؟ ایک قوم کو آندھی کے ساتھ عذاب دیا گیا اور ایک قوم نے عذاب دیکھا تو کہنے لگے : ’’یہ بادل ہم پر بارش برسانے والا ہے۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا ہی بیان کرتی ہیں : (( كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الرِّيْحِ وَالْغَيْمِ عُرِفَ ذٰلِكَ فِيْ وَجْهِهِ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ، فَإِذَا مَطَرَتْ سُرَّ بِهِ وَذَهَبَ عَنْهُ ذٰلِكَ، قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ إِنِّيْ خَشِيْتُ أَنْ يَكُوْنَ عَذَابًا سُلِّطَ عَلٰی أُمَّتِيْ، وَيَقُوْلُ إِذَا رَأَی الْمَطَرَ، رَحْمَةً)) [ مسلم، صلاۃ الاستسقاء، باب التعوذ عند رؤیۃ الریح....: ۸۹۹ ] ’’جب ہوا اور بادل والا دن ہوتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں پہچانا جاتا اور آپ (بے چینی کے عالم میں) کبھی اندر آتے کبھی باہر جاتے، جب بارش برسنے لگتی تو خوش ہو جاتے اور آپ کی وہ کیفیت ختم ہو جاتی۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا، میں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں ڈرتا ہوں کہیں وہ عذاب نہ ہو جو میری امت پر مسلط کیا گیا ہو۔‘‘ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کو دیکھتے تو کہتے : ’’(یا اللہ! اسے) رحمت( بنا)۔‘‘