قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ
(حضرت ہود نے) کہا (اس کا) علم تو اللہ ہی کے پاس ہے میں تو جو پیغام دے کر بھیجا گیا تھا وہ تمہیں پہنچا رہا ہوں (١) لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو (٢)
1۔ قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ: ہود علیہ السلام نے ان کے اس گستاخانہ مطالبے پر کسی تلخی کے اظہار کے بجائے انھیں مزید سمجھانے کی کوشش فرمائی۔ چنانچہ فرمایا، عذاب کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اس کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے، وہی جانتا ہے کہ تم پر دنیا میں عذاب آئے گا یا آخرت میں اور یہ بھی وہی جانتا ہے کہ تمھیں کب تک مہلت دی جائے گی۔ میرے پاس نہ اس کا اختیار ہے کہ جب چاہوں تم پر عذاب لے آؤں اور نہ ہی مجھے اس کے وقت کا علم ہے۔ 2۔ وَ اُبَلِّغُكُمْ مَّا اُرْسِلْتُ بِهٖ: میرا کام وہ پیغام تم تک پہنچا دینا ہے جو دے کر مجھے بھیجا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَمَا اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا اِنْ عَلَيْكَ اِلَّا الْبَلٰغُ ﴾ [ الشورٰی : ۴۸ ] ’’پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو ہم نے تجھے ان پر کوئی نگران بنا کر نہیں بھیجا، تیرے ذمے پہنچا دینے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ 3۔ وَ لٰكِنِّيْ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ: ’’جہل‘‘ اکھڑ پن کو بھی کہتے ہیں اور لاعلمی کو بھی۔ اگر پہلا معنی ہو تو جہالت برتنے کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک تم کفر پر اصرار کر رہے ہو، اچھی بات قبول کرنے کے بجائے عذاب مانگ رہے ہو اور دوسرے مجھ سے ایسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہو جو میرے اختیار میں نہیں ہے، اور اگر یہ جہل علم کے مقابلے میں ہو تو مطلب یہ ہے کہ تمھیں علم ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب کیا ہوتا ہے اور وہ تمھارے کس قدر قریب آ چکا ہے اور نہ یہ علم ہے کہ رسول پیغام پہنچانے کے لیے آتے ہیں، عذاب لانا ان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔