وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور عاد کے بھائی کو یاد کرو، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا (١) اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کی عبادت نہ کرو بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں (٢)۔
1۔ وَ اذْكُرْ اَخَا عَادٍ: ’’اذْكُرْ‘‘ ’’ذِكْرٌ‘‘سے ہو تو مطلب یہ ہے کہ اپنی قوم کے سامنے اس کا ذکر کرو، تاکہ انھیں نصیحت ہو اور اگر ’’ذُكْرٌ‘‘ سے ہو تو مطلب یہ ہے کہ اسے یاد کرو، تاکہ تمھیں اس سے تسلی حاصل ہو۔ دونوں باتیں بیک وقت بھی مراد ہو سکتی ہیں، کیونکہ’’اذْكُرْ‘‘دونوں سے فعلِ امر ہے۔ قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کا حال بیان کرنے کے بعد دنیا میں چند متکبر اقوام کا ذکر فرمایا، جن میں سے عاد کا ذکر کچھ تفصیل کے ساتھ اور دوسری اقوام کا حال آیت (۲۷): ﴿ وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى﴾ میں اجمال کے ساتھ بیان فرمایا۔ عاد کے بھائی سے مراد ہود علیہ السلام ہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ﴾ [الأعراف:۶۵]’’اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو(بھیجا)۔‘‘ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۶۵) کی تفسیر۔ ہود علیہ السلام کو قومِ عاد کا بھائی اس لیے فرمایا کہ وہ ان کے ایک فرد تھے۔ عاد کا تفصیلی ذکر اس لیے فرمایا کہ عرب اقوام میں سے یہ پہلی قوم ہے جس کے پاس نوح علیہ السلام کی عام رسالت کے بعد کوئی رسول آیا۔ ہود اور صالح علیھما السلام کا زمانہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے۔ سرداران قریش جو اپنی بڑائی کا زعم رکھتے تھے، انھیں قومِ عاد کا قصہ سنایا جو ان کی سرزمین کی سب سے طاقتور قوم تھی۔ 2۔ اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَهٗ بِالْاَحْقَافِ: ’’اَلْأَحْقَافُ‘‘ ’’حِقْفٌ‘‘ کی جمع ہے، ریت کے بلند اور مستطیل ٹیلے کو ’’حِقْفٌ‘‘ کہتے ہیں، جو کچھ ٹیڑھا ہو۔ ’’اِحْقَوْقَفَ الشَّيْءُ‘‘ جب کوئی چیز ٹیڑھی ہو۔ یہاں ’’احقاف ‘‘ سے مراد یمن کے مشرق میں حضر موت کا وہ علاقہ ہے جو عرب کے صحرائے اعظم (ربع خالی) کا حصہ ہے۔ ہود علیہ السلام کی قوم وہاں آباد تھی اور اس زمانے میں وہ نہایت زرخیز اور ترقی یافتہ علاقہ تھا، جس میں چشمے، باغات اور مال مویشی کثرت کے ساتھ موجود تھے، جیسا کہ سورۂ شعراء (۱۳۲ تا ۱۳۴) میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے بعد وہ علاقہ ایسا برباد ہوا کہ اب تک وہاں آبادی کا نام و نشان نہیں، ہر طرف ریگستان ہے اور ریت کے لمبے چوڑے ٹیلے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے کو ’’احقاف‘‘ اس کی موجودہ حالت کے اعتبار سے کہا گیا ہے۔ تفہیم القرآن میں ہے : ’’احقاف کی موجودہ حالت دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ کبھی یہاں ایک شاندار تمدن رکھنے والی ایک طاقتور قوم آباد ہو گی۔ اغلب یہ ہے کہ ہزاروں برس پہلے یہ ایک شاداب علاقہ ہو گا اور بعد میں آب و ہوا کی تبدیلی نے اسے ریگزار بنا دیا ہو گا۔ آج اس کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک لق و دق ریگستان ہے، جس کے اندرونی حصوں میں جانے کی بھی کوئی ہمت نہیں رکھتا۔ ۱۸۴۳ء میں بویریا کا ایک فوجی آدمی اس کے جنوبی کنارے پر پہنچ گیا تھا، وہ کہتا ہے کہ حضر موت کی شمالی سطح مرتفع پر سے کھڑا ہو کر دیکھا جائے تو یہ صحرا ایک ہزار فٹ نشیب میں نظر آتا ہے، اس میں جگہ جگہ ایسے سفید خطے ہیں جن میں اگر کوئی چیز گر جائے تو ریت میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے اور بالکل بوسیدہ ہو جاتی ہے۔ عرب کے بدو اس علاقے سے بہت ڈرتے ہیں اور کسی قیمت پر وہاں جانے پر راضی نہیں ہوتے۔ ایک موقع پر جب بدو اسے وہاں لے جانے پر راضی نہ ہوئے تو وہ اکیلا وہاں گیا۔ اس کا بیان ہے کہ یہاں کی ریت بالکل باریک سفوف کی طرح ہے، میں نے دور سے ایک شاقول اس میں پھینکا تو وہ پانچ منٹ کے اندر اس میں غرق ہو گیا اور اس رسی کا سرا گل گیا جس کے ساتھ وہ بندھا ہوا تھا۔ مفصل معلومات کے لیے ملاحظہ ہو : Arabia and the Isles by Harold Ingrams, London 1946 The Unveiling of Arabia. By Reginald Hugh kiernan, London 1937 ".The Empty Quarter By st john philby. London 1933 3۔ وَ قَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ ....: اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہود علیہ السلام سے پہلے بھی کئی ڈرانے والے گزرے اور ان کے بعد بھی اپنی اپنی قوم کو ڈرانے والے کئی پیغمبر گزر چکے، سب کی تعلیم یہی تھی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ ڈرانے والوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ بشارت ماننے والوں کو دی جاتی ہے۔ اس سورت کی ابتدا بھی اسی بات سے ہوئی ہے ، فرمایا: ﴿وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَمَّا اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ ﴾ [ الأحقاف : ۳ ] ’’اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اس چیز سے جس سے وہ ڈرائے گئے، منہ پھیرنے والے ہیں۔‘‘ 4۔ اِنِّيْ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ: ’’ عَظِيْمٍ ‘‘ ’’ يَوْمٍ ‘‘ کی صفت ہے۔ اس عظیم دن سے مراد آخرت کا دن بھی ہو سکتا ہے اور دنیا میں آنے والے تباہ کن عذاب کا دن بھی، جو قومِ عاد پر آندھی کی صورت میں آیا۔ یوم (دن) کو ان عظیم واقعات کی وجہ سے عظیم کہا ہے جو اس میں واقع ہوں گے۔