سورة الجاثية - آیت 19

إِنَّهُمْ لَن يُغْنُوا عَنكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۖ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

(یاد رکھیں) کہ یہ لوگ ہرگز اللہ کے سامنے آپ کے کچھ کام نہیں آسکتے (سمجھ لیں کہ) ظالم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہوتے ہیں اور پرہیزگاروں کا کارساز اللہ تعالیٰ ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّهُمْ لَنْ يُّغْنُوْا عَنْكَ مِنَ اللّٰهِ شَيْـًٔا: ’’إِنَّ‘‘ تعلیل یعنی کسی بات کی وجہ بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ پچھلی آیت میں فرمایا کہ آپ اللہ کی نازل کردہ شریعت کی پیروی کریں اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو نہیں جانتے۔ اب فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ انھیں خوش کرنے کے لیے ان کی خواہشات کے پیچھے چلیں گے اور دین میں کسی قسم کا رد و بدل کریں گے تو اپنے اللہ کو ناراض کر لیں گے، پھر یہ لوگ آپ کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کسی طرح نہ بچا سکیں گے۔ وَ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ....: یہ ایسے لوگوں کی خواہشات کی پیروی سے منع کرنے کی دوسری وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کی پیروی متقی لوگوں کا کام ہے اور اس کے غیر کی خواہشات کی پیروی ظالموں کا کام ہے، کیونکہ ظلم کسی کا حق دوسرے کو دینے کا نام ہے اور وہ اللہ کا حق دوسروں کو دے رہے ہیں۔ ایسے ظالم لوگ اپنے دنیوی مفادات کی خاطر ایک دوسرے کے دوست اور ان کے کہنے پر چلنے والے ہوتے ہیں۔ (دیکھیے عنکبوت : ۲۵) جب کہ متقی اللہ تعالیٰ کے دوست اور وہ ان کا دوست ہے۔ (دیکھیے بقرہ : ۲۵۷) اب اگر آپ نے اللہ کی شریعت کے بجائے کسی اور کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ دوستی کا رشتہ اپنے مالک سے توڑ کر ظالموں کے ساتھ جوڑ لیں گے، پھر اس سے بڑھ کر خسارا کیا ہو گا؟