إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
جب کہ تم چڑھے چلے جا رہے تھے (١) اور کسی کی طرف توجہ تک نہیں کرتے تھے اور اللہ کے رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے آوازیں دے رہے تھے (٢) بس تمہیں غم پر غم پہنچا (٣) تاکہ تم فوت شدہ چیز پر غمگین نہ ہو اور نہ پہنچنے والی (تکلیف) پر اداس ہو (٤) اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔
1۔ اِذْ تُصْعِدُوْنَ: یہ بھاگتے ہوئے مسلمانوں کی کیفیت کا ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری پچھلی جماعت میں، جو ثابت قدم رہی تھی، تمھیں پکار رہے تھے کہ اے اللہ کے بندو ! میری طرف آ ؤ ، میں یہاں ہوں، مگر تم دور دوڑے جا رہے تھے اور کسی کو نہ مڑ کر دیکھتے تھے، نہ کسی کی سنتے تھے۔ 2۔ فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ: یعنی تمہاری کوتاہی کے بدلے میں تمھیں غم پر غم پہنچایا، ایک شکست کا غم اور دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ کا صدمہ، جو پہلے غم سے زیادہ سخت تھا، پس ”بِغَمٍّ“ کے معنی ’’عَلٰي غَمٍّ ‘‘ ہیں اور بعض نے باء کو سببیت کے لیے مانا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغموم کرنے کی وجہ سے تمھیں غم پہنچایا، مگر پہلا معنی زیادہ صحیح ہے۔( ابن کثیر، شوکانی) 3۔ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوْا: یعنی تمھیں دوہرے غم میں مبتلا کر دیا، تاکہ نہ تو تمھیں مال غنیمت کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم ہو اور نہ زخمی و شہید ہونے اور شکست کا غم ہو، کیونکہ متواتر غم خصوصاً بڑے غم کے آنے کے ساتھ پہلے غم ہلکے ہو جاتے ہیں اور انسان سختیاں برداشت کرنے کا عادی ہو جاتا ہے۔