بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ يَلْعَبُونَ
بلکہ وہ شک میں پڑے کھیل رہے ہیں (١)۔
بَلْ هُمْ فِيْ شَكٍّ يَّلْعَبُوْنَ: اس مختصر سے فقرے میں ایک بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دہریے ہوں یا مشرکین، ان سب پر وقتاً فوقتاً ایسی ساعتیں آتی رہتی ہیں جب ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ جو کچھ تم سمجھے بیٹھے ہو اس میں کہیں نہ کہیں جھول موجود ہے۔ دہریہ اپنے انکارِ خدا میں بظاہر کتنا ہی سخت ہو، کسی نہ کسی وقت اس کا دل یہ شہادت دے گزرتا ہے کہ خاک کے ایک ذرے سے لے کر کہکشاؤں تک اور گھاس کی ایک پتی سے لے کر انسان کی تخلیق تک، یہ حیرت انگیز اور حکمت سے لبریز نظام کسی صانع حکیم کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ اسی طرح ایک مشرک انسان اپنے شرک میں خواہ کتنا ہی گہرا ڈوبا ہوا ہو، کبھی نہ کبھی اس کا دل بھی پکار اٹھتا ہے کہ جنھیں میں معبود بنائے بیٹھا ہوں یہ خدا نہیں ہو سکتے۔ لیکن اس قلبی شہادت کا نتیجہ نہ تو یہ ہوتا ہے کہ انھیں خدا کے وجود اور اس کی توحید کا یقین حاصل ہو جائے اور نہ یہی ہوتا ہے کہ انھیں اپنے شرک اور اپنی دہریت میں کامل یقین اور اطمینان حاصل رہے۔ اس کے بجائے اس کا دین درحقیقت شک پر قائم ہوتا ہے، خواہ اس میں یقین کی کتنی ہی شدت وہ دکھا رہے ہوں۔ اب رہا یہ سوال کہ پھر وہ سنجیدگی کے ساتھ حقیقت کی جستجو کیوں نہیں کرتے کہ شک کی بے چینی سے نکل کر یقین و اطمینان کے سکون سے بہرہ ور ہو سکیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں سنجیدگی ہی سے تو وہ محروم ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں اصل اہمیت صرف دنیا کی کمائی اور اس کے عیش کی ہوتی ہے، جس کی فکر میں وہ اپنے دل و دماغ اور جسم کی ساری طاقتیں خرچ کر ڈالتے ہیں۔ رہے دین کے مسائل، تو وہ حقیقت میں ان کے لیے ایک کھیل، ایک تفریح اور ایک ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں ہوتے، جن پر وہ سنجیدگی کے ساتھ چند لمحے بھی صرف نہیں کر سکتے۔ مذہبی مراسم ہیں تو تفریح کے طور پر ادا کیے جا رہے ہیں، انکار و دہریت کی بحثیں ہیں تو تفریح کے طور پر کی جا رہی ہیں۔ دنیا کے مشاغل سے اتنی فرصت کسے ہے کہ بیٹھ کر یہ سوچے کہ کہیں ہم حق سے منحرف تو نہیں ہیں اور اگر حق سے منحرف ہیں تو اس کا انجام کیا ہے۔ (تفہیم القرآن بادنیٰ تصرف)