فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ
اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے
فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ: ’’فَرْقٌ‘‘ کا معنی فیصلہ ہے، اسی لیے قرآن کو ’’فرقان‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’ حَكِيْمٍ ‘‘ کے مفہوم میں دو باتیں شامل ہیں، ایک یہ کہ وہ حکم حکمت اور دانائی پر مبنی ہوتا ہے، اس میں کسی غلطی یا خامی کا امکان نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ وہ حکم محکم اور پختہ ہوتا ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ یعنی ہم نے اسے خاص طور پر اس بابرکت رات میں اس لیے نازل کیا کہ یہ قرآن ایک امرِ حکیم ہے اور اسی رات میں ہر امرِ حکیم کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ سورۂ قدر میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: ﴿تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ﴾ [ القدر : ۴ ] ’’اس میں فرشتے اور روح (جبریل امین) اپنے رب کے حکم سے ہر امر کے متعلق اترتے ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ وہ ایسی رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ آئندہ سال سے متعلق افراد و اقوام کی قسمتوں کے تمام فیصلے فرشتوں کے حوالے کر دیتے ہیں، مثلاً زندگی، موت، بیماری، رزق، عروج و زوال اور ہدایت و گمراہی وغیرہ، پھر وہ ان پر عمل درآمد کرتے رہتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : (( إِنَّكَ لَتَرَی الرَّجُلَ يَمْشِيْ فِي الْأَسْوَاقِ، وَقَدْ وَقَعَ اسْمُهُ فِي الْمَوْتٰی، ثُمَّ قَرَأَ: ﴿اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ (3) فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ﴾ [الدخان : ۳، ۴] يَعْنِيْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَفِيْ تِلْكَ اللَّيْلَةِ يُفْرَقُ أَمْرُ الدُّنْيَا إِلٰی مِثْلِهَا مِنْ قَابِلٍ )) [ مستدرک حاکم، تفسیر سورۃ الدخان :2؍448، ح : ۳۶۷۸ ] ’’تم آدمی کو بازاروں میں چلتا پھرتا دیکھتے ہو، حالانکہ اس کا نام مُردوں میں درج ہو چکا ہوتا ہے۔ پھر یہ آیت پڑھی: ﴿ اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ (3) فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ ﴾ کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے، اس رات میں دنیا کے معاملات کا آئندہ سال کی اسی رات تک فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔‘‘ حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا اور بیہقی نے ’’شعب الایمان‘‘ میں اسے حاکم سے روایت کیا ہے اور اس کے محقق نے کہا کہ اس کی سند کے راوی ثقہ ہیں۔