أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُم ۚ بَلَىٰ وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ
کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں کو اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سن سکتے (یقیناً ہم برابر سن رہے ہیں) (١) بلکہ ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں (٢)۔
1۔ اَمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ: یہاں ’’ سِرَّهُمْ ‘‘ سے مراد وہ باتیں ہیں جو وہ راز کے طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خفیہ طور پر آہستہ آواز میں کرتے ہیں، کیونکہ اگر ’’سِرٌّ‘‘ سے دل میں موجود بات مراد ہو تو وہ سنی نہیں جاتی، بلکہ اس کا علم ہوتا ہے اور ’’ نَجْوٰىهُمْ ‘‘ سے مراد ان کی مجلس مشاورت کی باتیں ہیں۔ 2۔ بَلٰى وَ رُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُوْنَ: یعنی صرف یہی نہیں کہ ہم سنتے ہیں، بلکہ ہمارے فرشتے ثبوت کے طور پر لکھ بھی لیتے ہیں۔ (دیکھیے ق : ۱۷، ۱۸) یعنی ان کی خفیہ تدبیریں تو ہم سن رہے ہوتے ہیں، پھر وہ ان کی کامیابی کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔