فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِن بَيْنِهِمْ ۖ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ أَلِيمٍ
پھر (بنی اسرائیل) کی جماعتوں نے آپس میں اختلاف کیا (١) پس ظالموں کے لئے خرابی ہے دکھ والے دن کی آفت سے۔
1۔ فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَيْنِهِمْ: عیسیٰ علیہ السلام کے اس ارشاد کے باوجود بنی اسرائیل اختلاف سے باز نہیں آئے، بلکہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کے بارے میں مزید گروہوں میں بٹ گئے۔ بعض نے انھیں سچا رسول تسلیم کر لیا اور بعض نے انھیں جھوٹا اور مکار قرار دیا۔ پھر انکار کرنے والے کئی اس حد تک جا پہنچے کہ ان کی والدہ پر تہمت لگا کر انھیں ولد الزنا قرار دیا اور اس قدر مخالفت کی کہ اپنے گمان میں صلیب پر چڑھا کر دم لیا۔ اور ایمان لانے والے اگر کچھ راہِ راست پر رہے تو بعض نے انھیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا، بعض نے تین خداؤں میں سے ایک اور بعض نے اللہ ہی قرار دے لیا اور ہر فرقے نے ایسی ہٹ دھرمی سے کام لیا کہ بے شمار فرقے وجود میں آ کر ایک دوسرے سے جھگڑنے لگے۔ ’’ مِنْۢ بَيْنِهِمْ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف کا باعث بیرونی نہیں تھا بلکہ وہ خود ہی تھے۔ 2۔ فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ اَلِيْمٍ: ظلم کرنے والوں سے مراد وہ گروہ ہیں جنھوں نے انھیں جھوٹا قرار دیا اور وہ بھی جنھوں نے ان کی عقیدت میں غلو اختیار کرتے ہوئے انھیں اللہ کا بیٹا یا خود اللہ قرار دے کر شرک کا ارتکاب کیا۔ ’’ يَوْمٍ اَلِيْمٍ ‘‘ سے مراد قیامت کا دن ہے۔