فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ
اس نے اپنی قوم کو بہلایا پھسلایا اور انہوں نے اسی کی مان لی یقیناً یہ سارے ہی نافرمان لوگ تھے۔
1۔ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ: لفظی معنی ہے ’’اس نے اپنی قوم کو ہلکا (بے وزن) کر دیا۔‘‘ یعنی اس نے اپنی قوم کے لوگوں کی رائے کو کوئی وزن نہ دیا اور نہ ہی انھیں اپنی عقل سے سوچنے سمجھنے کا موقع دیا، بلکہ انھیں مجبور کیا کہ وہ اس کی ہاں میں ہاں ملا لیں۔ (دیکھیے مومن : ۲۹) چنانچہ وہ انھیں پھسلانے اور اُلُّو بنانے میں کامیاب ہو گیا اور وہ سب اس کے پیچھے لگ گئے۔ 2۔ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ:’’إِنَّ‘‘ تعلیل کے لیے ہوتا ہے، یعنی انھوں نے اس کی اطاعت اس لیے اختیار کی کہ فسق و فجور ان کی سرشت بن چکا تھا۔ وہ گمراہی کے راستے پر ہی چل سکتے تھے، سیدھی راہ پر چلنا ان کے بس کی بات ہی نہ تھی، جیسا کہ فرمایا: ﴿سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ اِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِهَا وَ اِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا وَ اِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ ﴾ [ الأعراف : ۱۴۶ ] ’’عنقریب میں اپنی آیات سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں حق کے بغیر بڑے بنتے ہیں اور اگر ہر نشانی دیکھ لیں تو بھی اس پر ایمان نہیں لاتے اور اگر بھلائی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھیں تو اسے راستہ بنا لیتے ہیں، یہ اس لیے کہ انھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ ان سے غافل تھے۔‘‘