وَلَوْلَا أَن يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَن يَكْفُرُ بِالرَّحْمَٰنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِّن فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ
اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی طریقہ پر ہوجائیں (١) گے تو رحمٰن کے ساتھ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو ہم چاندی کی بنا دیتے۔ اور زینوں کو (بھی) جن پر چڑھا کرتے۔
1۔ وَ لَوْ لَا اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً ....: ’’ سُقُفًا ‘‘ ’’سَقْفٌ‘‘ کی جمع ہے، چھتیں۔ ’’ مَعَارِجَ ‘‘ (سیڑھیاں) ’’مِعْرَجٌ‘‘ یا ’’مِعْرَاجٌ‘‘ کی جمع ہے، جیسے ’’مَفَاتِحُ‘‘ اور ’’مَفَاتِيْحُ‘‘ ’’مِفْتَاحٌ‘‘ کی جمع ہیں۔ ’’سُرُرًا ‘‘ ’’سَرِيْرٌ‘‘ کی جمع ہے، چارپائیاں، تخت۔ ’’زُخْرُفًا ‘‘ کا معنی سونا ہے، جیسا کہ کفار نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا : ﴿ اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ﴾ [ بني إسرائیل : ۹۳ ] ’’یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر ہو۔‘‘ اس کا معنی زینت و آرائش بھی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿حَتّٰى اِذَا اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّيَّنَتْ ﴾ [ یونس : ۲۴ ] ’’یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی آرائش حاصل کر لی اور خوب مزین ہو گئی۔‘‘ ’’ زُخْرُفًا ‘‘ منصوب ہونے کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ یہ اصل میں ’’سُقُفًا مِنْ فِضَّةٍ وَ مِنْ زُخْرُفٍ‘‘ ہے، حرف جار حذف ہونے کی وجہ سے منصوب ہو گیا، یعنی ’’ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور سونے کی۔‘‘ دوسری وجہ یہ کہ یہ ’’ لَجَعَلْنَا ‘‘ کے مفعول ’’سُقُفًا ‘‘ پر عطف ہے، یعنی ’’لَجَعَلْنَا لِبُيُوْتِهِمْ سُقُفًا مِنْ فِضَّةٍ وَ لَجَعَلْنَا لَهُمْ زُخْرُفًا‘‘ کہ ’’ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور ہم ان کے لیے سونا مہیا کر دیتے۔‘‘ ’’وَ اِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ‘‘ میں ’’ اِنْ ‘‘ نافیہ ہے اور ’’ لَمَّا ‘‘ بمعنی ’’إِلَّا‘‘ ہے، جیسے فرمایا : ﴿اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ﴾ [ الطارق : ۴ ] ’’نہیں کوئی جان مگر اس کے اوپر ایک حفاظت کرنے والا ہے۔‘‘ 2۔ آیات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ’’ وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ ‘‘ (اورتیرے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کر رہے ہیں) میں آخرت کی عظمت و شان اور دنیا کی حقارت بیان فرمائی تو ساتھ ہی بیان فرمایا کہ اس کے نزدیک دنیا بالکل ہی حقیر اور بے قدر و قیمت ہے، اس کے ہاں کوئی قیمت ہے تو صرف آخرت کی، اس لیے اس نے آخرت کی نعمتیں صرف مسلمانوں کے لیے خاص کر رکھی ہیں، کفار کا ان میں کوئی حصہ نہیں۔ دنیا کی نعمتوں میں اس نے مومن و کافر سب کو شریک رکھا ہے اور دونوں کو ان نعمتوں میں شریک رکھنے کی حکمت بیان فرمائی کہ اگر ہمیں یہ بات ناپسند نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی امت یعنی سبھی کافر ہو جائیں گے تو ہم دنیا کی زیب و زینت کی تمام اشیاء کفار کو دے دیتے، لیکن چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ لوگوں کے دلوں میں دنیوی زیب و زینت کی شدید رغبت اور محبت موجود ہے، اگر ہم نے یہ سبھی کچھ کفار کو دے دیا تو دنیا کی رغبت کے نتیجے میں سبھی لوگ کافر ہو جائیں گے، (جب کہ یہ بات ہماری رحمت کو منظور نہیں) اس لیے ہم نے کافر و مومن دونوں میں غنی بھی رکھے ہیں، فقیر بھی اور دنیا کی زندگی کے سازو سامان میں دونوں کو شریک رکھا ہے۔ آیت کے آخری جملوں : ﴿وَ اِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِيْنَ ﴾ (اور یہ سب کچھ دنیا کی زندگی کے سامان کے سوا کچھ نہیں اور آخرت تیرے رب کے ہاں متقی لوگوں کے لیے ہے) میں بیان فرمایا کہ آخرت صرف ایمان والوں کے لیے ہے۔ یہی مضمون سورۂ اعراف (۳۲) میں بیان ہوا ہے۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰهِ جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ مَا سَقٰی كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ)) [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء في ھوان الدنیا علی اللّٰہ عز و جل : ۲۳۲۰ ] ’’اگر دنیا اللہ کے ہاں مچھر کے ایک پر کے برابر ہوتی تو وہ اس میں سے کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ پینے کو نہ دیتا۔‘‘