أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِّن قَبْلِهِ فَهُم بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ
کیا ہم نے انہیں اس سے پہلے کوئی (اور) کتاب دی ہے جسے یہ مضبوط تھامے ہوئے ہیں (١)۔
اَمْ اٰتَيْنٰهُمْ كِتٰبًا مِّنْ قَبْلِهٖ....: ’’ اَمْ ‘‘ سے پہلے ہمزہ استفہام پر مشتمل کوئی جملہ ہوتا ہے جو بعض اوقات مذکور اور بعض اوقات محذوف ہوتا ہے۔ یہاں ذکر یہ ہو رہا ہے کہ مشرکین نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے کر انھیں اللہ تعالیٰ کا شریک بنا لیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بات کا ردّ فرمایا۔ ظاہر ہے فرشتوں کے مؤنث ہونے کا علم یا تو مشاہدے سے ہو سکتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے بتانے سے، جو اس کی نازل کردہ کسی کتاب میں موجود ہو۔ ’’ اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ ‘‘ ( کیا وہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے) میں پہلی صورت کا ردّ اور ان کے مشاہدے کی نفی ہے، یعنی انھوں نے ان کی پیدائش کو نہیں دیکھا کہ وہ مذکر ہیں یا مؤنث اور ’’ اَمْ اٰتَيْنٰهُمْ كِتٰبًا مِّنْ قَبْلِهٖ ‘‘ (یا کیا ہم نے انھیں اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے) میں دوسری صورت کا ردّ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس فرشتوں کے مؤنث ہونے کی اور ان کی پرستش کی کوئی نقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ کسی آسمانی کتاب میں انھیں یہ لکھا ہوا نہیں ملے گا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں یا اس کی بادشاہت میں ان کا کوئی حصہ ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر دہرائی ہے۔ دیکھیے سورۂ روم (۳۵)، فاطر(۴۰)، صافات (۱۵۶، ۱۵۷)، احقاف (۴)، نمل (۶۴)، حج (۸) اور انعام (۴۸)۔