سورة الزخرف - آیت 19

وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَٰنِ إِنَاثًا ۚ أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ ۚ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور انہوں نے فرشتوں کو جو رحمٰن کے عبادت گزار ہیں عورتیں قرار دے لیا۔ کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے؟ ان کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے (اس چیز کی) باز پرس کی جائے گی (١)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓىِٕكَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا: فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینے میں انھوں نے دو ظلم کیے، ایک یہ کہ فرشتے جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں انھیں ان کے مرتبے سے بڑھا کر اللہ تعالیٰ کی اولاد بنا دیا جو صریح شرک ہے اور عبودیت اور ولدیت کسی صورت جمع نہیں ہو سکتیں۔ دوسرا ظلم یہ کہ فرشتے جو تذکیر و تانیث سے بلند و برتر ہیں اور جن کی پیدائش ہی انسانوں سے مختلف ہے، انھیں اتنا گرایا کہ ان کے لیے برتر جنس مرد کے بجائے کمزور جنس عورت ہونا تجویز کیا۔ جھوٹے اور بہتان باز لوگوں کا جھوٹ ایسے ہی تناقض سے ظاہر ہوا کرتا ہے۔ اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ: اس کے دو معانی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا، کیا اس وقت یہ لوگ حاضر تھے کہ انھیں ان کا مؤنث ہونا معلوم ہو گیا۔ دوسرا یہ کہ کیا انھوں نے ان کے جسم کی ساخت کو دیکھا ہے کہ انھیں عورت قرار دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں سے کوئی بات بھی نہیں تو پھر ان کے پاس اس دعویٰ کی کیا دلیل ہے ؟ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَ يُسْـَٔلُوْنَ: یعنی یہ جو فرشتوں کے عورت ذات ہونے کی جھوٹی شہادت دے رہے ہیں اسے ان کے نامۂ اعمال میں لکھ لیا جائے گا اور قیامت کے دن ان سے ان کی جھوٹی شہادت کے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ 4۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ’’یہ جو فرمایا کہ بندے رحمان کے ہیں یعنی بیٹیاں نہیں اور معلوم ہوا کہ فرشتے اگرچہ نہ مرد نہ عورت مگر ان کے لیے الفاظ مردوں والے بولنے چاہییں۔‘‘ (موضح)