سورة آل عمران - آیت 140

إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اگر تم زخمی ہوئے ہو تو تمہارے مخالف لوگ بھی تو ایسے ہی زخمی ہوچکے ہیں ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں (١) (شکست احد) اس لئے تھی کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ظاہر کردے اور تم میں سے بعض کو شہادت کا درجہ عطا فرمائے اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ: یعنی اگر ’’ احد ‘‘ کے دن تمھیں مشرکین کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے تو تم بھی بدر کے دن انھیں اسی قسم کا نقصان پہنچا چکے ہو، اس لیے یہ زیادہ پریشانی کی بات نہیں۔ ”اَلْحَرْبُ سِجَالٌ“ (لڑائی میں باریاں ہوتی ہیں) جب بھی دو گروہوں میں جنگ ہوئی ہے تو کبھی ایک کا پلڑا بھاری رہا ہے، کبھی دوسرے کا۔ وَ تِلْكَ الْاَيَّامُ:جنگ احد میں مسلمانوں کو سخت جانی نقصان پہنچا۔ یہود اور منافقین کے طعنے مزید دل دکھانے کا باعث بنے۔ منافق کہتے تھے کہ اگر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سچے نبی ہوتے تو مسلمان یہ نقصان اور ہزیمت کی ذلت کیوں اٹھاتے وغیرہ۔ ان آیات میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ فتح و شکست تو ادلتی بدلتی چیز ہے، یہ حق اور نا حق کا معیار نہیں، آج اگر تم نے زخم کھایا ہے تو کل وہ جنگ بدر میں تمہارے ہاتھوں اسی قسم کا زخم کھا چکے ہیں اور خود اس جنگ کے شروع میں ان کے بہت سے آدمی مارے جا چکے ہیں، جیسا کہ اس آیت : ﴿اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ ﴾ [ آل عمران : ۱۵۲ ] (جب تم انھیں اس کے حکم سے کاٹ رہے تھے) سے معلوم ہوتا ہے۔ تمہاری اس شکست میں بھی کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں، ایک یہ کہ ایمان و اخلاص اور کفر و نفاق میں تمیز ہو گئی، مومن اور منافق الگ الگ ہو گئے، اگر ہمیشہ مسلمانوں کو فتح ہوتی تو منافقین کا نفاق ظاہر نہ ہوتا۔ دوسری مومنوں کو شہادت نصیب ہوئی، فرمایا :﴿وَ يَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَ﴾ جو اللہ کے ہاں بہت بڑا شرف ہے۔ کفار کی اس عارضی فتح کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ ظالموں اور مشرکوں کو پسند کرتا ہے، فرمایا : ﴿وَ اللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ﴾ ’’اور اللہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘ تیسری یہ کہ مومنوں کو خالص کرے، اگر ان میں کچھ کمی ہے تو دور کر دے، فرمایا :﴿وَ لِيُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا﴾ ’’اور تاکہ اللہ ان لوگوں کو خالص کر دے جو ایمان لائے‘‘ اور چوتھی یہ کہ کفار کی طاقت کو ختم کرنا مقصود ہے، ﴿وَ يَمْحَقَ الْكٰفِرِيْنَ﴾ اس طرح کہ وہ اپنی عارضی فتح پر مغرور ہو کر پھر لڑنے آئیں گے اور اس وقت ان کی وہ سرکوبی ہو گی کہ دوبارہ اس طرف رخ کرنے کا نام نہیں لیں گے۔ چنانچہ غزوۂ احزاب کے موقع پر ایسا ہی ہوا کہ اس کے بعد کفار نے دفاعی جنگیں تو لڑیں مگر خود حملے کی جرأت نہ کر سکے۔ (رازی، شوکانی)